+(00) 123-345-11

میں 1998ء سے سویڈن میں مقیم ہوں۔ اصل میں پاکستانی ہوں، میں سٹاک ہوم سویڈن میں اپنے مسلمان بھائی بہنوں کے ساتھ رہتا ہوں جو کہ مختلف علاقوں اور کلچر سے متعلق ہیں ہم اسلامی یا شرعی امور اپنے اپنے طریقوں سے ادا کرتے ہیں چونکہ ہم ایک دوسرے کو زیادہ سمجھا نہیں سکتے۔

ہماری اسلامی تنظیم یہاں ناکہ نامی ایک جگہ پر سٹاک ہوم میں ایک مسجد تعمیر کرنے کی کوشش میں ہے جو کہ ہماری آئندہ نسلوں کے لیے ایک انتہائی اہم پروگرام ہے ہم سب کچھ اسلامی روایات کے تحت کرنا چاہتے ہیں۔ ہمیں میونسپل کمیٹی نے گرجا کے قریب مسجد تعمیر کرنے کی اجازت دے دی ہے، گرجا اور مسجد کے درمیان صرف 4 میٹر کا فاصلہ ہے ہم یہ جگہ خرید کر مسجد بنانا چاہتے ہیں۔ گرجا کی انتظامیہ اور میونسپلٹی نے ہمیں خوش آمدید کہا ہے جبکہ گرجا والے یہ زمین بڑی اچھی قیمت پر بیچ رہے ہیں تاکہ اس پر مسجد تعمیر کی جا سکے۔ سارے منصوبہ پر 6 کروڑ SEK خرچ آئیں گے۔ گرجا کی انتظامیہ اپنی فروخت مکمل کر چکی ہے اور اب ہمیں ان کو جلد از جلد جواب دینا ہے۔

مجھے پتہ نہیں کہ یہاں مسجد کے لیے زمین خرید کرنا جائز ہے یا ناجائز چونکہ یہاں مختصر تعداد میں مسلمان ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ یہ حرام ہے جس کا ان کے پاس کوئی شرعی ثبوت نہیں ہے۔ اس لیے بطور مسلمان ہمیں سب سے پہلے یہ پتہ ہونا چاہیے کہ یہ کام حلال ہے یا حرام؟ ایسی صورتحال میں آپ سے رجوع کیا جاتا ہے کہ کیا گرجا گھر کے قریب مسجد تعمیر کی جا سکتی ہے؟ مجھے بہت سی مساجد کا علم ہے جو کہ گرجوں کے قریب بنی ہوئی ہیں۔ مگر آپ ہمیں ہماری مسجد کی صورتحال کے متعلق رہنمائی فرمائیں۔

اسلام کی یہ خصوصیت ہے کہ اس کے ماننے والوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے روئے زمین کو سجدہ کا مقام بنا دیا ہے، مسلمان دنیا کے جس خطے، کونے اور مقام پر ہوں وہ وہاں پر عبادت میں سربسجود ہو سکتے ہیں وہ عبادت کرنے کیلئے کسی مخصوص جگہ، منزل اور مقام کے محتاج نہیں ہیں۔

حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی نقل فرماتے ہیں:

قال ثم اتیت خمسالم یعطھن نبی قبلی جعلت لی الارض مسجداً وطھوراً ونصرت بالرعب علی عدوی مسیرۃ شھر وبعثت الی الاسود والاحمر واحلت لی الغنائم ولم تحل لنبی کان قبلی واعطیت الشفاعۃ وھی نائلۃ من امتی من مات منھم لایشرک باللہ شیئا۔ (مسند ابوداؤد طیالسی ج: ۱، ص : ۶۴)

ترجمہ: حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا مجھے پانچ چیزیں دی گئی ہیں جو مجھ سے قبل کسی نبی کو نہیں دی گئیں، میرے لیے زمین کو مسجد اور طہارت کا ذریعہ بنا دیا گیا، اور ایک مہینے کی مسافت سے دشمن پر رعب کے ساتھ میری مدد کی گئی ہے اور مجھے سیاہ وسرخ کی طرف بھیجا گیا اور میرے لیے غنیمتوں کو حلال کیا گیا اور مجھ سے قبل کسی نبی کے لیے غنیمتیں حلال نہیں ہوئیں اور مجھے شفاعت کا حق دیا گیا ہے او رمیری شفاعت کا فائدہ میری امت کے ان لوگوں کو ملے گا جو ان میں سے اس حالت میں وفات پا گیا ہو کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو۔

اس حدیث سے یہ واضح ہے کہ مسلمان دنیا کے ہر خطہ اور ہر جگہ پر سجدہ کر سکتا ہے اور اسے اپنی عبادت گاہ بنانے کے لیے منتخب کر سکتا ہے اور وہاں مسجد قائم کر سکتا ہے سوائے ان مواضع کے جہاں سجدہ کرنے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہو مثلاً قبرستان یا ناپاک اور گندے مقامات وغیرہ۔ مقامات کی تعمیم میں غیر مسلم حضرات کی عبادت کی جگہیں اور اس سے ملحقہ مواضع بھی داخل ہیں، کیونکہ یہاں مساجد بنانے کی ممانعت کی کوئی نص وارد نہیں ہوئی۔ بلکہ تاریخ اسلامی میںبعض ایسے واقعات ملتے ہیں جن میں غیر مسلموں کی رضاء سے ان کے عبادت خانہ کو مسجد میں تبدیل کیا گیا یا اسلامی فتوحات کی حد میں آنے والے غیر مسلم حضرات کے عبادت کے مقامات پر مسجد تعمیر ہوئی چنانچہ دمشق میں جامع اموی کے متعلق حضرت مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب اپنے سفر نامہ میں تحریر فرماتے ہیں:

یہ جامع اموی جو کسی زمانہ میں فن تعمیر کے عجائب میں شما رہوتی تھی بنو امیہ کے مشہور خلیفہ ولید بن عبدالملک نے تعمیر کی تھی، رُومیوں کے عہد حکومت میں یہاں عیسائیوں کا ایک کلیسا تھا جو کنسیہ یوحنا کہلاتا تھا۔ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں مسلمانوں نے دمشق پر حملہ کیا تو آدھا شہر لڑائی کے ذریعے بزور فتح ہوا لیکن جب تقریباً آدھا شہر فتح ہو گیا تو اہل شہر نے ہتھیار ڈال کر مسلمانوں سے صلح کر لی چنانچہ باقی نصف شہر صلح کے ذریعے فتح ہوا۔ اسلام کا اصول یہ ہے کہ دشمن کا جو علاقہ لڑائی کے ذریعے فتح ہوا اس کے بارے میں اسلامی حکومت کو اختیار حاصل ہوتا ہے کہ وہ اس میں جو تصرف چاہے کر لے لیکن جو علاقہ مصالحت کے ذریعے فتح ہو اس میں صلح کی شرائط کی پابندی کرنی پڑتی ہے۔ اتفاق سے اس کلیسا کا نصف حصہ لڑائی سے اور باقی نصف حصہ مصالحت سے فتح ہوا تھا جو حصہ لڑائی سے فتح ہوا اس میں تو مسلمانوں نے اپنے شرعی اختیار پر عمل کرتے ہوئے مسجد بنا لی لیکن باقی نصف حصہ جو صلحاً فتح ہوا تھا اس کو معاہدے کی شرائط کے تحت کلیسا ہی برقرار رکھا۔ چنانچہ فتح دمشق کے بعد سالہاسال تک یہاں مسجد اور کلیسا برابر برابر قائم رہے جب ولید بن عبدالملک کا زمانہ آیا تو نماز پڑھنے والوں کی تعداد اتنی زیادہ ہو گئی کہ مسجد تنگ پڑ گئی دوسری طرف مسجد کے بالکل برابر کلیسا ہونے کی وجہ سے ایک مستقل بدمزگی شروع سے چلی آرہی تھی۔ ولید بن عبدالملک چاہتے تھے کہ کلیسا کا حصہ بھی مسجد میں شامل کر لیا جائے لیکن معاہدے کی شرائط کے مطابق کلیسا قائم رکھنے پر مجبور تھے۔ انہوں نے کلیسا کے ذمہ داروں کو بلا کر ان سے بات چیت کی اور اس جگہ کے بدلے انہیں چار کلیسائوں کے برابر جگہ دینے یا اس کے معاوضے میں منہ مانگی رقم پیش کرنے کی پیشکش کی لیکن وہ یہاں سے کلیسا ہٹانے پر رضا مند نہیں ہوئے۔ اس حد تک تو روایات متفق ہیں اس کے بعد روایات میں اختلاف ہے بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ عیسائیوں کے انکار کے بعد ولید بن عبدالملک نے زبردستی اس حصہ پر قبضہ کر کے وہاں مسجد تعمیر کر دی پھر حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کا دور آیا تو عیسائیوں نے ان سے اس زبردستی کی شکایت کی اس پر حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے ان عیسائیوں کے حق میں فیصلہ دیا اور اس حصہ سے مسجد ختم کر کے اسے عیسائیوں کے حوالے کرنے کا ارادہ فرمایا لیکن بعد میں دمشق کے حاکم نے عیسائیوں کو منہ مانگا معاوضہ دے کر راضی کر لیا اور پھر وہ بخوشی اس حصے سے دستبردار ہو گئے۔ اور بعض روایات سے اس کے برخلاف معلوم ہوتا ہے کہ ولید بن عبدالملک نے شروع ہی سے عیسائیوں پر کوئی زبردستی نہیں کی تھی بلکہ یہ کہا تھا کہ اگر وہ یہ کلیسا کی زمین مسجد کو دینے کیلئے رضا مند ہو جائیں تو دمشق اور اس کے مضافات کا جو حصہ مسلمانوں نے بزور فتح کیا تھا وہاں کے جن چار کلیسائوں کے انہدام کا فیصلہ ہو چکا ہے وہ فیصلہ واپس لے لیا جائے گا اور یہ چاروں کلیسا آپ کو واپس کر دئیے جائیں گے چنانچہ اس پر عیسائیوں نے اپنی رضا مندی سے یہ کلیسا مسلمانوں کے حوالے کر دیا۔

(جہانِ دیدہ ص ۲۷۳، ۲۷۴ بحوالہ فتوح البلدا ص : ۱۴۹ و تاریخ ابن عساکر ج : ۲، ص: ۱۹)

اسی طرح جامع مسجد قرطبہ کے متعلق حضرت مفتی صاحب فرماتے ہیں:

جس جگہ آج جامع قرطبہ واقع ہے، رومانی بت پرستوں کے زمانہ میں یہاں ان کی ایک عبادت گاہ تھی، جب اسپین میں عیسائی مذہب پھیلا تو انہوں نے عبادت گاہ کو گرا کر یہاں ایک کلیسا تعمیر کر لیا جو ’’بنجنت‘‘ (Vincent) کے نام سے مشہور ہوا جب مسلمانوں نے قرطبہ فتح کیا تو یہاں تقریباً وہی صورت پیش آئی جو دمشق کی فتح کے وقت دمش میں پیش آئی تھی جس طرح دمشق کا کلیسا نصف نصف تقسیم ہوگیا تھا اسی طرح قرطبہ کے اس کلیسا کو شرائط صلح کے مطابق دو حصوں میں بانٹ دیا گیا، ایک حصے کو مسلمانوں نے بدستور کلیسا رہنے دیا اور دوسرا حصہ مسجد بنا دیا گیا او ایک مدت تک یہاں مسجد اور کلیسا دونوں ساتھ ساتھ قائم رہے، لیکن جب قرطبہ مسلمانوں کا دارالحکومت قرار پایا اور یہاں کی آبادی تیز رفتاری سے بڑھی تو مسجد کا حصہ نمازیوں کے لیے تنگ پڑ گیا، یہاں تک کہ جب عبدالرحمن الداخل کی حکومت آئی تو اس کے سامنے جامع قرطبہ کی توسیع کا سوال آیا مسجد کی توسیع اس کے بغیر ممکن نہ تھی کہ کلیسا کو مسجد میں شامل کیا جائے لیکن چونکہ عیسائیوں کے ساتھ معاہدہ ہو چکا تھا کہ نصف حصہ میں کلیسا برقرار رکھا جائے گا اس لیے مسلمانوں کی روایات اور شرعی احکام کے مطابق عیسائیوں کو راضی کیے بغیر اسے مسجد میں شامل کرنا ممکن نہیں تھا۔ عبدالرحمن الداخل نے بڑے بڑے عیسائی رئیسوں کو بلا کر ان سے کلیسا کی زمین خریدنے کی تجویز پیش کی اور منہ مانگی قیمت دینے کا وعدہ کیا، عیسائی مذہب میں کلیسا کی فروخت جائز ہے، اس لیے عیسائیوں کے لیے اس پیش کش کو قبول کرنے میں کوئی مذہبی رکاوٹ نہیں تھی لیکن عیسائی کلیسا ہٹانے پر راضی نہ ہوئے، کافی دن تک انہیں راضی کرنے کا سلسلہ جاری رہا، بالآخر انہوں نے گراں قیمت کے علاوہ اس شرط پر رضا مندی ظاہر کر دی کہ شہر کے باہر ان کے جو کلیسا منہدم ہوئے انہیں دوبارہ تعمیر کرنے کی اجازت دے دی جائے، عبدالرحمن الداخل نے یہ شرط منظور کر لی اور اس طرح یہ کلیسا کا حصہ بھی مسجد کو مل گیا۔

(دنیا میرے آگے ص : ۴۳، ۴۴ بحوالہ نفح الطیب ج : ۲، ص : ۹۵)

مندرجہ بالا حوالہ جات سے واضح ہے کہ معاہدہ کے تحت غیر مسلموں کے عبادت کے مقام کو بدل کر مسجد بھی بنا سکتے ہیں اور اس کے قریب بھی مسجد تعمیر کر سکتے ہیں البتہ اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ کوئی بدمزگی والی صورت حال کسی بھی وقت نہ پیش آئے۔ اس بارے میں احتیاط ضروری ہے اور مذکورہ مقام پر چونکہ آپ کو انتظامیہ کی طرف سے اور گرجا گھر کے عیسائیوں کی طرف سے بخوشی اجازت دی جا رہی ہے کہ آپ مسجد بنائیں اس لیے مسجد بنانے میں شرعاً کوئی رکاوٹ نہیں ہے اور بہتر ہوگا کہ اس اجازت کو ان سے باقاعدہ طور پر تحریر کروا لیا جائے اور انتظام میں ہر ایسی صورت کو ملحوظ رکھا جائے جس میں مسلمان اپنی عبادت کو پرسکون طریقے سے انجام دے سکیں، ممکن ہے کہ اخلاص کے ماحول میں ادا کی گئی نمازوں کی برکت سے اللہ تعالیٰ اس گرجا گھر کو مسجد میں شامل فرما دیں اور اسلام کو ان کے دلوں میں راسخ فرما دیں۔