+(00) 123-345-11

ہمارا علاقہ قبائل کا ہے ۔ قبائل میں یہ قانون ہے کہ حکومت نوکری قومی بنیادوں پر دیتی ہے مثلاً ایک قوم بڑی ہے اس کے لیے دس نوکریاں ہیں اور ایک قوم چھوٹی ہے کے اس کے لیے پانچ نوکریاں ہیں حکومت یہ نوکری استعداد اور قابلیت کے لحاظ سے نہیں دیتی بلکہ بلا استعداد یہ نوکری قومی بنیادوں پر حکومت کی جانب سے ملتی ہے تو قوم والے اس نوکری کو اشخاص پر تقسیم کرتے ہیں مثلاً ایک نوکری ہے اس میں دس اشخاص شریک ہیں تو نوکری ایک ہے اور نوکری کرنے والے دس ہیں ایک کہتا ہے میں کروں گا دوسرا اور تیسرا ایضاً غرض ہر ایک کہتا ہے کہ نوکری میں کروں گا تویہ دس حضرات آپس میں نوکری کی قیمت لگاتے ہیں پس جس نے قیمت ادا کی تو نوکری اس کی ہو گی ۔اور جب یہ شخص مر جائے تو اس کی اولاد کے نام پر ہوتی ہے پھر اس کے پوتوں کے نام پر الخ۔ اور باقی حضرات کو وہ رقم جو ادا شدہ ہے ہر ایک کو اپنے حصے کے مطابق ملتی ہیں مثلاً نوکری کی قیمت ایک لاکھ روپے ہے تو نوے ہزار روپے نو اشخاص کے لیے ہوں گے یہ نوکری دسویں آدمی کی ہو گئی اور اس نوکری کا نام ہمارے قبائل میں خاصداری ہے اب ایسے نوکریاں دوسروں سے لینا اور دوسروں پر فروخت کرنا مذکورہ ترتیب کے ساتھ شرعاً جائز ہے یا نہیں؟ اگر جائز نہیں ہے تو جو رقم اپنے حصہ کے فروخت کرنے سے ملی ہے تو اس کا کیا کرنا چاہیے؟

حکومت کی طرف سے جو ملازمت کی پیشکش چند افراد کو مشترکہ طور پر کی جائے تو اس میں اپنے استحقاق کا عوض نہ بطور بیع وصول کرنا جائز ہے اور نہ ہی دستبرداری کے طور پر اس کا عوض لیا جا سکتا ہے کیونکہ یہ ایسی ملازمت نہیں جو کسی کے لیے ثابت ہو چکی ہو بلکہ اس میں ملازمت کی پیشکش کی بنیاد پر صرف اس ملازمت کا استحقاق ہے جس کا عوض وصول کرنا رشوت ہے جو کسی طرح لینا درست نہیں ایسا معاملہ کرنا گناہ ہے لہٰذا اس سے بچنا لازم ہے۔

ان الحقوق التی لیست ثابتۃ الاٰن وانما ھی متوقعۃ فی المستقبل لا یجوز الاعتیاض عنھا بصورۃ من الصور(بحوث فی قضایا فقھیۃ معاصرۃ / ۱۱۵)

مندرجہ بالا تفصیل کے مطابق چونکہ اپنے استحقاق کا عوض وصول کرنا ناجائز تھا اس لیے یہ رقم جن حضرات سے لی گئی ان کو یا ان کے نہ ہونے کی صورت میں ان کے ورثاء کو واپس کرنا ضروری ہے اگر ان میں سے کوئی بھی نہ ملے تو ان کی طرف سے( ثواب کی نیت کے بغیر )صدقہ کردے۔

وفی المنتقیٰ: ابراھیم عن محمد رحمہ اللہ تعالیٰ فی امراۃ نائحۃ او صاحب طبل او مزمار اکتسب مالا قال ان کان علی شرط ردہ علی اصحابہ ان عرفھم یرید بقولہ علی شرط ان شرطوا لھا فی اولہ مالا بازاء النیاحۃ او بازاء الغناء وھذا لانہ اذا کان الاخذ علی الشرط کان المال بمقابلۃ المعصیۃ فکان الا خذ معصیۃ والسبیل فی المعاصی ردھا و ذلک ھھنا بردالماخوذ ان تمکن من ردہ بان عرف صاحبہ وبالتصدق بہ ان لم یعرفہ لیصل الیہ نفع مالہ ان کان لا یصل الیہ عین مالہ (ھندیۃ/ ۵ : ۳۴۹)