+(00) 123-345-11

ٹائون مالکان نے ایک پلاٹ مسجد کے لیے وقف کر کے رجسٹرڈ انتظامی کمیٹی کے حوالے کر دیا بعد میں میونسپل کارپوریشن نے اس پلاٹ پر دعویٰ کر دیا، عدالت میں ٹائون مالکان نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ ہم نے سارا ٹائون میونسپل کارپوریشن کو دے دیا۔ مسجد کی تعمیر کے بعد اس میں نماز بھی شروع کر دی گئی ہے۔ مندرجہ بالا حقائق کی روشنی میں علماء دین اور مفتیان کرام کیا فرماتے ہیں؟

(۱) ٹائون کے مالکان نے جو پلاٹ انتظامی کمیٹی کو مسجد کیلئے وقف کر کے دے دیا ہے اور ان کو باقاعدہ طور پر منتظم بنا دیا ہے تو وہ پلاٹ مسجد کے لیے وقف ہو گیا ہے اور وقف کرنے والوں کی ملکیت سے نکل گیا ہے اب وہ اس کے مالک نہیں رہے۔

ویزول ملکہ عن المسجد والمصلی) بالفعل و (بقولہ جعلتہ مسجدا) بجماعۃ وقیل: یکفی واحد وجعلہ فی الخانیۃ ظاھر الروایۃ۔ (شامیۃ ج ۴، ص ۳۵۶)

(۲) مسجد کا پلاٹ مسجد کے لیے وقف ہو چکنے کے بعد بلدیہ کی ملکیت نہیں ہو سکتا۔

(۳) ٹائون مالکان نے جب وہ پلاٹ مسجد کے لیے وقف کر دیا ہے تو ان کی ملکیت سے وہ پلاٹ نکل گیا ہے لہٰذا اب وہ اس پلاٹ کی حیثیت کو بدلنے کا اختیار بھی نہیں رکھتے اور اس کو آگے بیچ بھی نہیں سکتے۔

(۴) انتظامی کمیٹی (جو رجسٹرڈ ہو چکی ہے )کو بلاوجہ شرعی کوئی شخص برخواست نہیں کر سکتا، البتہ اگر قاضی کے ہاں واقعی ان کی خیانت ثابت ہو جائے تو قاضی یا وقف کرنے والا ان کی جگہ متبادل کمیٹی بنا سکتا ہے۔

ثم اتفق المتأخرون ان الافضل ان لایعلموا القاضی فی زماننا لما عرف من طمع القضاۃ فی اموال الاوقاف وکذلک اذا کان الواقف علی ارباب معلومین یحصٰی عددھم اذا نصبوا متولیًا وھم من اھل الصلاح۔ (شامیۃ ج ۴، ص ۴۲۲)

قال فی شرح الملتقی الی الاشباہ لایجوز للقاضی عزل الناظر المشروط لہ النظر بلاخیانۃ۔ (شامیۃ ج ۴، ص ۳۸۲)