+(00) 123-345-11

ایک شخص نے اپنی زندگی میں اپنی جائیداد میں سے کچھ جائیداد بعض بیٹوں کے نام کردی تھی اور کچھ جائیداد کسی کے نام نہیں کی اب پوچھنایہ ہے کہ (۱) جن بیٹوں کے نام جائیداد کی گئی کیا وہ اس کے مالک ہونگے یا دوسرے بھی حصہ دار ہونگے۔(۲) بیٹیوں کو جہیز میں کافی زیادہ مال دے دیا تھا کیا اب بھی ان کا وراثت میں حصہ باقی ہے۔ (۳) کیا زندگی میں اولاد میں سے کسی ایک کو ھبہ کرنا جائز ہے (۴) والدین کے گناہوں کی معافی کے لئے ہم کیا کریں۔ (۵) کچھ ورثاء کافی مالدار ہیں کیا ان کو بھی حصہ دینا چاہیے۔ (۶) بعض ورثاء کہتے ہیں کہ صرف زمین تقسیم کرنا ضروری ہے گھر کا سامان تقسیم کرناضروری نہیں۔ کیا یہ بات درست ہے؟

جب کوئی شخص دنیا سے رخصت ہو تو اس کی وفات کے وقت اس کی ملکیت میں موجود نقدی، سونا، چاندی، پیسہ، روپیہ، دوکان، مکان، کپڑے اور استعمالی اشیاء وغیرہ غرضیکہ اس کی ملکیت کی ہر چھوٹی بڑی چیز اس کا ترکہ ہے جو اس کے ورثاء کے درمیان شریعت کے مطابق تقسیم کرنا لازم ہے۔

آپ کے والد صاحب نے اپنی زندگی میں جومکان او رپلاٹ اپنے بیٹوں کے نام لگوایا تھا اگر وہ مکان اور پلاٹ بیٹوں کو باقاعدہ طور پر مالک وقابض بنا کر جُدا کر کے ان کی ملکیت میں دے دیا تھا اور والد صاحب کی حیات میں ان جگہوں پر والد صاحب کا قبضہ اور کنٹرول نہیں رہا تھا تو اس مکان اور پلاٹ کی ملکیت بیٹوں کو حاصل ہوگئی ہے، اب یہ ان بیٹوں کے مملوک ہیں لہٰذا اس میں وراثت جاری نہیں ہوگی، اور اگر والد مرحوم نے یہ مکان اور پلاٹ اپنے بیٹوں کے صرف نام لگوائے تھے لیکن بیٹوں کو مالک و قابض بنا کر نہیں دئیے تھے بلکہ اپنے ہی قبضہ میں رکھے تھے تو اس صورت میں قبضہ نہ دینے کی وجہ سے ھبہ تام نہیں ہوا اور وہ پلاٹ اور مکان بدستوروالدمرحوم کی ملکیت میں ہوں گے۔ جو ان کی وفات کے بعد ان کے جملہ ورثاء کے درمیان شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہوںگے۔

مندرجہ بالا تفصیل کے پیش نظر آپ کے شق وار سوالات کے جوابات حسب ذیل ہیں:

1۔والد صاحب نے اگر جائیدادبیٹوں کے نام لگوا کر ان کو مالک و قابض بنا کردیدی تھی اور اپنا قبضہ اور کنٹرول ختم کردیا تھا تو اس جائیدادکے بیٹے مالک ہوں گے لیکن اگر جائیداد فقط بیٹوں کے نام لگائی تھی مگر اپنی زندگی میں والد صاحب کاقبضہ اور کنٹرول برقرار رہا توشرعی طور پر وہ ترکہ میں شامل ہے، اوربیٹے تنہا اس کے مالک نہیں ہیں۔

2۔شادی کے وقت جہیز لینے سے کوئی بیٹی وراثت سے محروم نہیں ہو سکتی، کیونکہ وراثت مورث کے مرنے کے بعد ملتی ہے اور وفات کے بعد اس کا استحقاق ہوتا ہے اور زندگی میں جبکہ استحقاق ہی حاصل نہ ہوا ہو تو محروم کئے جانے کے باوجود وارث شرعاً محروم نہیں ہوتا، یہی وجہ ہے کہ اگر والدین اپنی زندگی میں کسی وارث کو عاق کرکے اسے وراثت سے محروم بھی کردیں تو پھر بھی وہ وارث شرعاً محروم نہیں ہوتا اور اس کومال وراثت میں سے طے شدہ حصہ ملتا ہے لہٰذا جہیز لے لینے سے کوئی بیٹی ہرگز وراثت سے محروم نہیں ہوتی۔

3۔والدین اپنی زندگی میں کسی ایک بچے کواگرچہ کچھ دینے کا اختیار رکھتے ہیں تاہم بہتر یہ ہے کہ وہ عدل و انصاف کو قائم رکھتے ہوئے تمام اولاد کے درمیان تقسیم میں مساوات کا خیال رکھیں اور کسی ایک کو بلاوجہ ترجیح نہ دیں۔ حضرت نعمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ انکی والدہ بنت رواحہ نے ان کے والد سے مطالبہ کیاکہ وہ ان کے بیٹے کو اپنے مال میں سے کچھ ھبہ کریں وہ ایک سال تک ٹال مٹول کرتے رہے، پھر والد صاحب کی رائے بھی موافق ہو گئی لیکن والدہ کہنے لگیں میں اس وقت تک راضی نہیں ہوں گی یہاں تک کہ تم نے جو میرے بیٹے کو ھبہ کیا ہے اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ بنائو۔ میرے والد صاحب نے میرا ہاتھ پکڑا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے آئے میں ابھی لڑکا تھا، میرے والد صاحب عرض کرنے لگے یارسول اللہ اس بچے کی والدہ بنت رواحہ کو یہ پسند ہے کہ میں آپ کو اس بیٹے کو دئیے جانے والے ھبہ پر گواہ بنائوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے بشیر کیا اس کے علاوہ بھی تیرے بچے ہیں؟ والد صاحب کہنے لگے، جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم نے اپنی ساری اولاد کو اس کی مانند ھبہ کیا ہے؟ والدصاحب کہنے لگے نہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاپھر تم مجھے گواہ نہ بنائو کیونکہ میں ظلم پر گواہ نہیں بنوں گا۔(مسلم شریف، ج:۲ ، ص:۳۷)

اور اگر والدین اپنی اولاد میں سے کسی ایک کو اس غرض سے دے کر جائیں تاکہ دوسرے ورثاء وراثت سے محروم ہوجائیں تو وہ شدید گنہگار ہوں گے۔ اس صورت میں بعد والوں کو چاہئیے کہ وہ انصاف کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے جہاں تک ہو سکے ان کے گناہ کی تلافی کی کوشش کریں۔

4۔والدین کے لئے جہاں نمازوں میں اور نمازوں کے بعد دُعا کا اہتمام کرتے رہیں وہاں اگر ان سے زندگی میں کوئی بے اعتدالی ہو گئی ہو تو اس کی اصلاح اور تلافی کی بھی بھرپور کوشش کرنی چاہئیے تاکہ زندگی میں سرزد ہونے والے اعمال کا وبال ختم ہو اور انصاف کے تقاضے پورے ہوں اور خدا کے ہاں سرخروئی نصیب ہو۔

5۔کسی کا امیر یا غریب ہونا وراثت کی تقسیم پر اثرانداز نہیں ہوتا، شریعت نے جو حصے تمام ورثاء کے مقرر کئے ہیں ان تک وہ حصے پہنچانا لازم اور ضروری ہے، ہاں اگر کوئی وارث بلا جبر واکراہ اپنی مرضی سے کسی دوسرے وارث کو کچھ دے دے تو اُسے اس بات کا اختیار ہے لیکن اس کے لئے نہ اسے مجبور کیا جاسکتا ہے اور نہ امیر و غریب کے فرق کو ملحوظ رکھتے ہوئے وراثت کی تقسیم روکی جاسکتی ہے۔

6۔جیسا کہ سابقہ سطور میں گزرا کہ مرحوم کے انتقال کے وقت جو کچھ بھی ان کی ملکیت میں از قسم نقدی، سونا، چاندی، روپیہ، پیسہ، مکان، دکان، کپڑے، استعمالی اشیاء غرضیکہ ہر چھوٹا بڑا سازوسامان ہو وہ مرحوم کاترکہ ہے جو ان کے ورثاء کے درمیان شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہوگا اور صرف زرعی زمین کو قابل تقسیم سمجھنا اور مکان وغیرہ کوقابل تقسیم نہ جاننا سراسر دین و شریعت کے خلاف ہے۔