+(00) 123-345-11

کیا سیدہ لڑکی سے غیر سیدلڑکے مثلاً لوہار وغیرہ کا نکاح جائز ہے یا نہیں۔ اگر ناجائز ہے تو کن وجوہات کی بنا پر۔ اور اگر نکاح ہو جائے تو اس صورت حال میں کیا کرنا چاہیے۔

اصل سوال کے جواب سے پہلے تمہید کے طور پر چند باتوں کا معلوم ہونا مناسب ہے۔

(۱)رشتہ نکاح کے اعتبار سے لوگوں کو تین حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔

۱۔ قریش یعنی وہ تمام عرب جن کا سلسلہ نسب ’’نضربن کنانہ‘‘ سے ملتا ہے۔ خواہ وہ ہاشمی ہوں، صدیقی ہوں، عثمانی ہوں یا فاروقی ہوں۔ یہ سب ایک دوسرے کے کفو ہیں۔

۲۔ قریش کے علاوہ باقی اہل عرب۔ یہ حضرات ایک دوسرے کے برابر اور آپس میں کفو ہیں۔

۳۔ تیسرا گروہ غیر عرب یعنی عجم کا ہے۔ یہ سب آپس میں برابر ہیں۔ ان میں مزید کوئی درجہ بندی نہیں ہے۔

لما فی ’’ردالمختار‘‘ ؛

(فقریش) القرشیان من جمعھما اب ھو النضر بن کنانہ ۔۔۔۔۔ (بعضھم اکفاء بعض) ای لا تفاضل فیما بینھم من الھاشمی والنوفلی والتیمی والعدوی وغیرھم۔ (۳؍۹۵)

وفی ’’المغنی لابن قدامہ‘‘ ؛

قال ابو حنیفۃ لا تکافی العجم العرب ولا العرب قریش وقریش کلھم اکفائ۔

(۷؍۳۷۴)

وفی الشامیۃ (۳؍۸۷)

فالنسب معتبر فی العرب فقط

(۲) نکاح میں نسب کے اندر برابری کا اعتبار عورت کی طرف سے ہوتا ہے یعنی اگر لڑکی اعلیٰ خاندان سے تعلق رکھتی ہو تو کسی ایسے شخص کا وہ کفو نہیں ہے جو اس سے کم درجہ کا ہو۔ البتہ اگر اولیاء اور لڑکی کی رضامندی سے غیر کفو میں نکاح کر دیا جائے تو شرعاً ایسا نکاح منعقد ہو جاتا ہے۔ لہٰذا اگر سیدہ زادی کا نکاح غیر سید سے اولیاء اور لڑکی کی رضامندی سے کردیا جائے تو جائز ہے۔ اگر اولیاء کی اجازت کے بغیر بالغہ سیدہ لڑکی اپنا نکاح غیر کفو (غیرسید) میں کرلے تو ظاہر الروایۃ کے مطابق یہ نکاح بھی درست ہے۔ جبکہ دوسرا قول یہ ہے یہ نکاح اولیاء کی اجازت پر موقوف رہے گا۔

سوال میں پوچھی گئی تمام جزئیات کا جواب مذکورہ بالاامور سے بخوبی واضح ہے۔

لما فی ’’الھندیۃ‘‘ ؛ الکفاء ۃ معتبرۃ فی الرجال للنساء للزوم النکاح ولا تعتبر فی جانب النساء للرجال (۲؍۱۵)

وفی ’’بذل المجھود‘‘؛

قال ابو حنیفۃ لا یعتبر الولی فی البالغۃ مطلقا لحدیث الثیب۔ (۲؍۲۵)

وکذا فی ’’البحر الرائق‘‘؛ (۳؍۱۱۰)