+(00) 123-345-11

صوبہ سرحد سے کچھ لوگ شادی کرتے ہیں اس طرح کہ پنجاب میں ان کا کوئی نمائندہ موجود ہوتا ہے اس سے رابطہ کرتے ہیں اور وہ صوبہ سرحد کے نمائندہ سے رابطہ کرتا ہے اور وہ بچی کے والدین سے رابطہ کرتا ہے دونوں نمائندگان کچھ رقم لے کر نکاح کسی شخص سے کر دیتے ہیں اس طرح کچھ رشتے کامیاب اور کچھ ناکام ہوتے ہیں اور بعض اوقات اس طرح بھی ہوتا ہے کہ کسی پندرہ سال کی بچی کا نکاح کسی ستر سالہ شخص سے کر دیا جاتا ہے اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ اس میں کفو اور غیر کفو اور عمر کے تفاوت اور نمائندگان کے رقم لینے کے متعلق شرعی نقطہ نظر کی وضاحت کریں۔

اسلام میں نکاح کے تصور سے مرا دایسا پائیدار رشتۂ زوجیت ہے جس سے دو شخص نکاح کے بندھن سے جڑتے ہیں اور ان کے درمیان الفت و محبت کے دائمی رشتے قائم ہوتے ہیں جو دونوں کے خیال و تصور اور چشم و دل کی حفاظت کا سبب بن کر تکمیلِ ایمان اور تسکینِ جان بہم پہنچاتے ہیں، بلکہ اس سے بڑھ کر زوجین کے خاندانوں میں قرب و محبت پیدا ہوتی ہے جس سے اجتماعیت کا دائرہ وسعت پذیر ہوتا ہے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اس رشتہ کو سکون کا باعث اور محبت و رحمت کا ذریعہ قرار دیا ہے چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔

’’ومن اٰیتہ ان خلق لکم من انفسکم ازواجا لتسکنوا الیھا وجعل بینکم مودۃ و رحمۃ‘‘۔ (سورۃ روم، آیت : ۲۱)

ترجمہ: ’’اور اسی کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس کی عورتیں پیدا کیں تاکہ ان کی طرف مائل ہو کر آرام حاصل کرو اور تم میں محبت اور مہربانی پیدا کر دی‘‘۔

جب رشتہ نکاح سکون کا سبب اور پائیدار محبت کا ذریعہ ہے تو اسلام نے اس رشتہ کو قائم کرنے کے لیے ایسے امور پیش نظر رکھنے کی ہدایت دی ہے جس سے موافقت پیدا ہو اور نکاح، مقاصدِ نکاح کے حصول کا ذریعہ بنے، چنانچہ نکاح سے قبل ایک نظر دیکھ لینے کی ترغیب اور جابر رضی اللہ عنہ کو ثیبہ کی بجائے کنواری عورت سے نکاح کا ارشاد اور خاندانوں کے درمیان کفا ء ت و ہم سری کا اعتبار نیز نکاح کے لیے عورتوں سے اجازت کا حصول اور ان کی رضا کی مختلف صورتیں یہ سب اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ نکاح میں جانبین کی رضامندی ہونی چاہیے اور نکاح ایک دیکھا بھالا اور سوچا سمجھا معاملہ ہونا چاہیے جس میں فریقین بالغ نظر ہوں تو از خود بھی اس کا فیصلہ کر سکتے ہیں یا ان کے بالغ نظر اولیاء ان کے بہترین دینی اور دنیاوی فوائد، سیرت و کردار کی تعمیر، عزت و آبرو کے تحفظ اور پائیدار دوستی و محبت کے سلسلوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے زوج کا انتخاب کریں۔

سوال میں ذکر کردہ صورت جس میں ایجنٹ حضرات دو غیر متعارف خاندانوں کے غیر متعارف افراد کو باہم ایک دوسرے سے عقدِ نکاح کے ذریعے جوڑتے ہیں، اگرچہ گواہوں کی موجودگی میں ایجاب و قبول کے ساتھ عقد نکاح منعقد ہوا ہو، تاہم یہ کوئی مثالی طریقہ نہیں ہے جس طریقہ میں پائیدار محبت، دائمی الفت اور جانبین سے تسکین و راحت کا سامان ہو، اسی بنا پر اس قسم کے نکاح میں عموماً جانبین سے یا جانب واحد سے بے رغبتی، بے چینی، گھٹن اور بعض اوقات لڑائی جھگڑے تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔ ایسے نکاح کروانے والے حضرات کے پیش نظر بھی عموماً مال و زر کی طمع ہوتی ہے اور عقد نکاح کا مؤثر محرّک بھی مال و زر کی فراوانی اور اس کا حصول ہوتا ہے جس میں بچی اور ا سکے فطری جذبات ہی زیادہ طور پر مجروح ہوتے ہیں، اور مشاہدہ کے مطابق اس قسم کے نکاحوں میں بچی کو ایک قابلِ خرید و فروخت سامان کی حیثیت سے زیادہ حیثیت حاصل نہیں ہوتی جسے مالکان اپنی مرضی سے جس کے چاہیں حوالے کر دیں اور جتنا عوض مناسب سمجھیں وصول کریں اور یہ معاملہ کرنے کے بعد بچی اپنے والدین اور اعزہ سے بیگانہ سمجھی جاتی ہے اور اب انہیں اس کے کسی دُکھ درد اور تنگی و ترشی سے کوئی سروکار نہیں، انسان جس چیز کے متعلق رائے دینے لگے تو سب سے قبل اس کو اپنے اوپر اطلاق کر کے دیکھے کہ آیا اس قسم کے معاملات اگر اُس کی اپنی بچیوں سے ہوں تو اُس کی طبیعت اُس کو کیسے گوارا کرے گی؟ جو اپنے لیے پسند نہ ہو وہ دوسروں کے لیے بھی ناپسند ہونا چاہیے، اس لیے ایسے نکاح جن میں نکاح کرنے والے اور کروانے والے باہمی موافقتوں اور نکاح کے پائیدار تعلقات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے صرف پیشہ وارانہ طور پر دُنیا کے حصول کی لالچ اور شہوت پرستی میں غلو کو پہنچ کر ان کا انعقاد کریں تو اسلام اس جیسے امور کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا بلکہ حوصلہ شکنی کرتا ہے اور اسلام اعتدال کا درس دیتا ہے، جب اس مخصوص قسم کے نکاحوں کی اسلام حوصلہ افزائی نہیں کرتا تو ایسے رشتے کروانے والوں کی کمائی بھی کوئی اتنی اچھی نہیں ہے۔

واضح رہے کہ ہماری گفتگو صرف نکاح کی اس مخصوص صورت کے بارے میں چل رہی ہو جو صوبہ سرحد یا بعض دیگر علاقوں میں مروج ہے اور جس میں یہ اکثر نقائص پائے جاتے ہیں جو اوپر مذکور ہوئے ہیں۔ ورنہ ہم نہ تو نابالغ بچیوں کے نکاح پر پابندی کی بات کر رہے ہیں اور نہ ہی سابقہ ایسے نکاحوں پر گفتگو کر رہے ہیں جس میں کسی سمجھدار بچی یا اس کے اولیاء نے عظیم تر دینی مقاصد کے لیے اس کا نکاح بڑی عمر کے لوگوں سے کیا اور بعد میں اس کے فوائد کا پوری دنیا نے اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا۔

خلاصہ یہ ہے کہ سوال میں ذکر کردہ نکاح کی صورت کہ جس میں بعض ایجنٹ حضرات دو لوگوں کا باہم رابطہ کروا کر نکاح کروا دیتے ہیں اور دوسرے صوبوں کی بعض بچیوں کے رشتے دُور دَراز کے شہروں میں کروا کر پیسے لے لیتے ہیں یا بچی کے والدین کو پیسے دلوا دیتے ہیں تو اسلام میں اس قسم کے نکاح کی حوصلہ افزائی نہیں کی گئی اس قسم کے نکاح کو جواز کا درجہ دینے کے لیے اگرچہ شرعی حدود و قیود کے سہارے ڈھونڈے گئے ہوں اور ایجاب و قبول کا انعقاد ہوا ہو، تاہم یہ نکاح پائیدار اور دائمی اُلفت و محبت اور سکون کا سبب نہیں ہے اس لیے ایسے نکاحوں کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔