+(00) 123-345-11

ہمارے والد صاحب کا انتقال گذشتہ سال ہو گیا تھا اور اب والدہ کا انتقال ہو گیا ہے ہم تین بھائی اور چار بہنیں ہیں۔ والد صاحب کا انتقال والدہ کے انتقال سے ایک سال قبل ہو گیا تھا۔ ہماری والدہ مرحومہ کی جائیداد ہے جس میں تین حصے رہائشی اور ۱۴ دکانیں ہیں ان ۱۴ دکانوں میں ۱۳ دکانیں کرایہ پر ہیں اور ایک دکان ایک بھائی کے پاس ہے۔ ہماری والدہ صاحبہ نے اپنی زندگی میں ہم سب بہن بھائیوں کو زبانی طور پر اس بات سے آگاہ کر دیا تھا کہ تینوں رہائشی حصے لڑکوں کیلئے ہیں اور لڑکوں کو ان کا مالک بنا دیا تھا اور دکانوں کا کرایہ والدہ صاحبہ اپنی زندگی تک خود لیتی تھیں۔ والدہ مرحومہ نے انتقال سے چند گھنٹہ قبل ہم کو (بڑے بیٹے کو) یہ بات کہی کہ (زبانی طور پر) اپنی چاروں بہنوں کا میرے بعد خیال رکھنا اور ایک ایک دکان کا کرایہ ایک ایک بہن کو دیا جائے۔ والدہ مرحومہ نے اپنی زندگی میں ۱۴ دکانوں میں سے ایک دکان اپنے ایک لڑکے کو (لڑکے نے اپنے لیے مانگی تھی) زبانی طور پر کہہ کر کہ یہ دکان تیری ہے دے دی اور ہماری دو بہنیں اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ والدہ مرحومہ نے ان سے الگ الگ موقعہ پر یہ بات کہی کہ اگر میرا یہ بھائی جو دکان مانگ رہا ہے اگر اسٹامپ کا کاغذ لا دے تو میں یہ دکان اس کے نام بھی لکھنے کو تیار ہوں۔والدہ کے انتقال کے بعد اب تک چاروں بہنوں کو ایک ایک دکان کا کرایہ دیا جا رہا ہے باقی 9دکانوں کا کرایہ ہم تینوں بھائی آپس میں تقسیم کر لیتے ہیں۔ واضح رہے کہ ہماری بہنوں کی شادی والد صاحب(مرحوم) نے اپنی زندگی میں کر دی تھی اور ہر بہن کو ایک ایک رہائشی مکان بھی خرید کر ان کے نام رجسٹری کرا کر دیا ہوا ہے۔

مرحومہ کے ذمہ اس جائیداد پرکچھ ٹیکس کی ادائیگی باقی ہے۔

(۱) مزید اس بات کی وضاحت بھی فرمائیں کیا لڑکیوں کا حصہ دکانوں میں ہو گا اگر ہو گا تو ان کو جو کرایہ دیا جا رہا ہے اس کے علاوہ ہو گا یاحصہ میں شامل ہو گا؟

(۲) کیا ایک بیٹے کو جو دکان دی تھی وہ لڑکے کی الگ ملکیت ہو گی اور اس کے علاوہ دکانوں میں حصہ ہو گا؟ یا یہ دکان اس کے پاس نہ رہے گی اور ترکہ میں شامل ہو جائے گی؟

(۳) آپ سے گزارش کہ صحیح شرعی تقسیم کس طرح ہو سکتی ہے اور ہم کو کیا طریقہ اختیار کرنا چاہیے جبکہ اس وقت صرف کرایہ کی آمدنی ہی کی تقسیم پیش نظر ہے۔

(نوٹ) والد صاحب کی میراث کی تقسیم ان کی وفات کے بعد ہو چکی ہے جن دکانوں کا قصہ ہے وہ والدہ کی ذاتی ملکیت ہیںاور تمام وارثین کا جو شرعی حصہ میراث بنتا ہو وہ سب وضاحت سے بتادیں۔

اگر والدہ نے اپنی زندگی میں رہائشی حصے تینوں بیٹیوں کو مالک و قابض بنا کر ان کو سپرد کر دئیے تھے تو یہ رہائشی حصے بیٹوں کی ملکیت ہیں لہٰذا ان میں وراثت نہیں جا ری ہو گی اسی طرح اگر والدہ نے بیٹے کے مانگنے پر دکان مالک و قابض بنا کر اس کے حوالہ کر دی تھی او ر اس دکان کا مکمل قبضہ و اختیار اس کو دے دیا تھا تو یہ دکان بیٹے کی ملکیت سمجھی جائے گی لہٰذا یہ بھی وراثت سے مستثنیٰ ہو گی۔

وفی الفتاوٰی: رجل لہ ابن و بنت اراد ان یھب لھما شیئا فالافضل ان یجعل للذکر مثل حظ الانثیین عند محمد وعند ابی یوسف بینھما سواء ھوالمختار لورود الاٰثار ولو وھب جمیع مالہ لابنہ جاز فی القضاء وھو اثم نص عن محمد ھکذا فی العیون ولو اعطی بعض ولدہ شیئا دون البعض لزیادۃ رشدہ لا بأس بہ وان کانا سواء لا ینبغی ان یفضل (خلاصۃ الفتاویٰ / ۴ ، ۴۰۰ ، الفتاوٰی العالمگیرۃ / ۴ :۳۹۱ ، الفتاوٰی الشامیۃ / ۶ : ۶۹۶) قال الاٰخر (ایں چیز ترا) فھو ھبۃ یشترط فیھا القبض (عالمگیریۃ / ۴ : ۳۷۵ ، بزازیۃ علی ھامش الھندیۃ / ۶ : ۲۳۴) وشرائط صحتھا فی الموھوب ان یکون مقبوضا غیر مشاع ممیزا غیر مشغول (الدر المختار / ۵ : ۶۸۸، عالمگیریۃ / ۴ ۳۷ ، / ۴: ۳۹۱)

والدہ نے انتقال سے چند گھنٹہ قبل جو بہنوں کو چار دکانوں کا کرایہ دینے کے بارے میں کہا ہے شرعاً یہ ان کے حق میں وصیت ہے اور وصیت وارثوں کیلئے باطل ہے اب یہ تمام دکانیں اور ان سے حاصل شدہ کرائے تمام وارثوں پر آنے والی تفصیل کے مطابق تقسیم ہوں گے ۔

عن ابی امامۃ رضی اللہ عنہ ان النبی ﷺ خطب فقال ان اللہ تعالیٰ قد اعطیٰ کل ذی حق حقہ فلا وصیۃ لوارث (اعلاء السنن / ۱۸ : ۳۰۱) وشرائطھا کون الموصی اھلا للتملیک… وکونہ غیر وارث وقت الموت (رد المختار / ۶ : ۶۴۹، البحر الرائق / ۸ : ۴۰۳ ، فتح القدیر /۹ : ۳۴۱)

اب مرحومہ کی جائیداد کی تقسیم کا طریق کاریہ ہے کہ مرحومہ نے بوقت انتقال اپنی ملکیت میں منقولہ وغیر منقولہ جائیداد و سامان، دکان سونا چاندی، استعمالی اشیاء ، زیورات اور کپڑے وغیرہ غرضیکہ چھوٹا بڑا سازو سامان جو کچھ چھوڑا ہے یہ سب ان کا ترکہ ہے اس سے سب سے پہلے تجہیز و تکفین کے متوسط مصارف(سنت کے مطابق) نکالیں اور اس کے بعد اگر مرحومہ کے ذمہ کوئی واجب الاداء قرض ہے تو قرض ادا کیاجائے اس کے بعد اگر مرحومہ نے غیر وارث کے لیے کوئی وصیت کی ہو تو اس پر باقی ماندہ ترکہ کی ایک تہائی 1/3 کی حد تک عمل کریں اس کے بعد جو کچھ ترکہ بچے تو اس کے مساوی دس حصے کریں (بشرطیکہ سوال میں ذکر کردہ وارثوں کے علاوہ مرحومہ کا اور کوئی وارث مثلا ماں ، باپ ، دادا، دادی وغیرہ کوئی نہ ہو) ان میں سے چھ حصے بیٹوں میں اور چار حصے بیٹیوں میں اس طرح تقسیم کریں کہ ہر بیٹے کو دو حصے اور ہر بیٹی کو ایک حصہ ملے ۔

یبدأ من ترکۃ المیت الخالیۃ عن تعلق حق الغیر بینھا کالرھن والعبد الجانی بتجھیزہ من غیر تقتیر ولا تبذیر ثم دیونہ التی لھا مطالب من جھۃ العباد ثم وصیتہ من ثلاث ما بقی ثم یقسم الباقی بین ورثتہ (تنویر الابصار / ۶ : ۶۱ ، ۷۵۹)

مزید وضاحت کیلئے نقشہ ملاحظہ فرمائیں:

مسئلہ ۱۰

م

بیٹیاں /۴ بیٹے /۳

فی کس ۱ فی کس ۲

اس تفصیل سے مطلوبہ سوالوں کا جواب ہو گیا تاہم مزید اطمینان کیلئے کیے گئے سوالوں کا جواب بالترتیب اجمالاً لکھا جاتا ہے۔

۱: اس کا جواب پہلے لکھا گیا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ کرایہ کی وصیت وارث ہونے کی وجہ سے باطل ہے، اب کرایہ اور مذکورہ جائیداد ذکر کردہ تفصیل کے مطابق تمام ورثاء میں تقسیم ہو گی۔

۲: اس کا جواب بھی پہلے آچکا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جب یہ دکان اس کو قابض اور مالک بنا کر دے دی گئی اور دو بہنیں بھی اس کی شہادت دے رہی ہیں تو یہ دکان اس بیٹے کی ہو گی مرحومہ کے ترکہ میں شامل نہیں ہوگی۔

(۳) صحیح شرعی تقسیم کی تفصیل اوپر گذر چکی ہے اس کے مطابق جائیداد اور آمدنی کو تقسیم کرنا چاہیے صرف آمدنی کی تقسیم پر اکتفا نہ کریں۔