+(00) 123-345-11

گزارش ہے کہ میرے پھوپھا نے کچھ عرصہ قبل کچھ رقم مجھے کاروبار میں لگانے کے لئے دی یہ رقم بطور امانت کے دی تھی اور یہ بھی اجازت دی تھی کہ کاروبار میں استعمال کر سکتے ہو۔ مارچ 2007میں ان کا انتقال ہوگیا اور اب 14-01-10کو پھوپھی کا بھی انتقال ہوگیا ہے۔ اُن کی کوئی اولاد نہیں ہے۔ صرف ایک لے پالک بیٹی ہے جو پھوپھی کی بھتیجی ہے۔

پھوپھی کی وفات کے بعد میرے قریبی عزیز مجھ سے تقاضا کررہے ہیں کہ میں یہ رقم ان کی مرضی کے مطابق تقسیم کروں ورنہ وہ مجھ سے ناراض ہو جائیں گے۔ برائے مہربانی مجھے انصاف کا ایساراستہ بتائیں کہ میں ان کی ناراضگی سے بھی بچ جائوں اور یہ رقم بھی صحیح حقداروں کو پہنچ جائے۔

پھوپھا کی وفات کے وقت میرے پاس مبلغ گیارہ لاکھ اکیس ہزار سات سو پچاس روپے تھے۔ اُس وقت سے اب تک اصل رقم میں سے مبلغ چار لاکھ اکیس ہزار سات سو پچاس روپے اور اب تک کا نفع میں پھوپھی کو ادا کر چکا ہوں جس میںتقریباً 178000روپے لے پالک بیٹی کو اور 100000روپے پھوپھی کی بھانجی کو دئے گئے ہیں۔ اس وقت میرے پاس مبلغ 700000روپے واجب الادا ہیں۔

آپ کے استفسار پر مرحومین کے لواحین کی تفصیل کچھ یوں ہے:

پھوپھا کے انتقال کے وقت اُن کے ۳ بھائی اور ۳ بہنیں حیات تھیں۔

پھوپھی کے انتقال کے وقت اُن کا ۱ بھائی اور ۳ بہنیں حیات تھیں۔

ہر وہ مال جو بوقت انتقال مرحوم کی ملکیت میں ہو خواہ جائیداد منقولہ ہو جیسے سونا، چاندی اور روپے وغیرہ یا غیرمنقولہ ہو جیسے زمین پلاٹ وغیرہ اس کو ترکہ شمار کیا جاتاہے۔ لہٰذا صورت مسئولہ میں جو رقم پھوپھا نے بطور امانت آپ کے پاس رکھوائی تھی اس کو مرحوم کا ترکہ شمار کیا جائے گا۔ترکہ سے تین قسم کے حقوق متعلق ہوتے ہیں۔ جن کو ذکر کی گئی ترتیب کے مطابق ادا کرنا ضروری ہے۔

۱۔ سب سے پہلے میت کے کفن دفن پر ہونے والے جائز ومتوسط اخراجات ترکہ سے نکالے جاتے ہیں۔البتہ اگر کسی وارث نے خوشی سے یہ اخراجات برداشت کر لئے ہوں تو ترکہ سے نکالنے کی ضرورت نہیں ہے۔

۲۔ اسکے بعد باقی ترکہ سے اگرمرحوم پر قرض ہو وہ ادا کیا جاتاہے۔ خواہ قرض کی ادائیگی میں سارا مال لگ جائے۔

۳۔ اس کے بعد اگر مرحوم نے کسی غیر وارث کے حق میں جائز وصیت کی ہو اس کو باقی مال کے تہائی تک نافذ کیاجاتا ہے۔اس کے بعد باقی ترکہ کو مرحوم کے ورثاء میں اس طرح تقسیم کریں گے کہ کل مال کے ۳۶ حصے بنا کر مرحوم کے ہر بھائی کو ۶حصے اور ہر بہن کو ۳ حصے اور پھوپھی کو ۹ حصے دئیے جائیں گے۔

اور مرحومہ پھوپھی کے کل مال کے ۵ حصے کرکے بھائی کو دو اور ہر بہن کو ایک ایک حصہ دیا جائے گا۔ جو رقم پھوپھی کی بھانجی اور لے پالک بچی کو دی ہے اس کو بھی مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق تقسیم کرنا ضروری ہے۔ یاد رہے کہ لے پالک اولاد کا میراث میں شرعاً کوئی حصہ نہیں تاہم اگر بالغ ورثاء بخوشی کچھ دے دیں تو وہ اس کے حق میں تبرع ہوگا۔