+(00) 123-345-11

میرے شوہر عبدالحفیظ مرحوم کا انتقال ہواجن کی جائیداد میں سے درج ذیل اشیاء میں سے کون کون سی اشیاء وراثت میں ہونگی اور کون سی نہیں ہوں گی؟

۱۔ تقریباً ساڑھے سات مرلہ کا مکان جس میں ان کی بیٹی، داماد اور بیوہ رہ رہی ہے۔

۲۔ پانچ مرلہ کا خالی پلاٹ۔

۳۔ پانچ مرلہ کا مکان جو مرحوم اپنی زندگی میں اپنی زوجہ کے نام کرگئے تھے، اور رجسٹری انتقال وغیرہ بھی اپنی زوجہ کے نام کروا دیا تھا۔ اور زوجہ کو مالک و قابض بنا کر دے دیاتھا، زوجہ، مرحوم کی حیات ہی میں اس مکان میں کرائے دار رکھتی رہی ہیں، اور آخر میں زوجہ نے مرحوم کے ایک بیٹے کو عارضی طور پر مکان میں کرایہ کے بغیر ٹھہرادیا تھا، اب وہ بیٹا مکان پر قابض ہے اور اس کو خالی نہیں کر رہا۔

مرحوم کے ورثاء میں مندرجہ ذیل رشتہ دار حیات ہیں۔

(۱) زوجہ ۳ بیٹے (پہلی بیوی سے جو وفات پا چکی تھی) ۳ بیٹیاں

مرحوم کے انتقال کے وقت جو اشیاء بھی مرحوم کی ملکیت میں ہوں، مثلا نقدی سونا چاندی مکان دکان کپڑے اور دیگر اسباب و سامان یہ سب مرحوم کا ترکہ ہے، اس کو مرحوم کے ورثاء کے درمیان شرعی حصوں کے مطابق تقسیم کیا جائے گا، سوال میں ذکر کردہ (۱) میں ساڑھے سات مرلے کا مکان اور (۲) میں پانچ مرلے کا خالی پلاٹ مندرجہ بالا ضابطہ کے مُطابق مرحوم کے ترکہ میں شامل ہوں گے۔ البتہ (۳) میں ذکر کردہ مکان اگر شوہر مرحوم نے اپنی حیات و تندرستی میں واقعی اپنی زوجہ کو مالک وقابض بنا کر اسکے حوالے کردیاتھا اور اس کو مکمل طور پر بااختیار بنادیا تھا جیسا کہ سوال سے واضح ہے تو اس صورت میں مرحوم کی زوجہ اس مکان کی شرعی مالک ہے، لہٰذا اس مکان پر مرحوم کے بیٹے کا قبضہ برقرار رکھنا جائز نہیں، اس پر لازم ہے کہ وہ یہ مکان مرحوم کی زوجہ کے حوالے کرے،ور نہ وہ گناہگار ہوگا۔

مرحوم کی جائیداد کو تقسیم کرنے کا طریقہ مندرجہ ذیل ہے۔

مرحوم کے انتقال کے وقت جو چیز بھی مرحوم کی ملکیت میں تھی اس میں سے سب سے قبل مرحوم کی تجہیز وتکفین کے متوسط مصارف سنت کے مطابق نکالے جائیں گے۔ اس کے بعد مرحوم کے ذمہ اگر کوئی قرض ہو تو اس کو ادا کیا جائے گا( واضح رہے اگر مرحوم نے اپنی بیوی کا حق مہر ادا نہیں کیا تھا اور بیوی نے خوشدلی سے معاف بھی نہ کیا ہو تو وہ بھی مرحوم کے ذمہ قرض ہے لہٰذا پہلے اس کو ادا کیاجائے گا) اس کے بعد دیکھیں اگر مرحوم نے کوئی وصیت کی ہو تو مال کی ایک تہائی تک اس کو نافذ کیا جائے،پھر جس قدر مال بچے اس کو ۷۲ مساوی حصوں میں تقسیم کرکے بیوی کو ۹ حصے اور ہر بیٹے کو ۱۴ حصے اور ہر بیٹی کو ۷ حصے دے دئے جائیں۔

اگرفیصد کے لحاظ سے تقسیم کو ملاحظہ کرنا ہو تو اس کی ترتیب یہ ہوگی۔

زوجہ کا حصہ=%۵.۱۲ہر بیٹے کا حصہ=%۴۴۴ .۱۹ہر بیٹی کاحصہ=%۷۲۲.۹

مزید وضاحت کے لئے مندرجہ ذیل نقشہ کو ملاحظہ فرمائیں۔

م مسئلہ ۸×۹ تصح ۷۲ مضروب ۹

زوجہ بیٹا بیٹا بیٹا بیٹی بیٹی بیٹی

۹ ۱۴ ۱۴ ۱۴ ۷ ۷ ۷

واضح رہے کہ میراث کی یہ تقسیم اس صورت میں ہے جب کہ مرحوم کے انتقال کے وقت کوئی اور وارث مثلاً مرحوم کی والدہ اور والد وغیرہ میں سے کوئی زندہ نہ ہو، اگر بالفرض ان ورثاء میں سے کوئی زندہ ہو تو مسئلہ دوبارہ معلوم کرلیں۔