+(00) 123-345-11

ایک مجلس میں دی گئی تین طلاقیں ایک شمار ہوں گی یا تین اہل حدیث کے علماء نے ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک ثابت کیا ہے۔

ایک مجلس میں دی گئی تین طلاق تین ہی ہو تی ہیں اور بیوی حرام ہو جاتی ہے اور بغیر حلالہ شرعیہ کے دوبارہ نکاح جائز نہیں ہوتا یہ موقف قرآن اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہے اور اسی پر جمہور صحابہ کرام ؓ ،تابعین ؒ اورائمہؒ سلف وخلف کااجماع ہے۔ جیسا کہ احادیث صحیحہ میں ہے۔

(۱) صحیح بخاری ومسلم کی متفقہ روایت ہے۔

’’عن عائشۃؓ ان رجلاً طلق امرأتہ ثلاثاً فتزوجت فطلق فسئل النبی صلی اللہ علیہ وسلم اتحل للاول قال لاحتی یذوق عسیلتھا کما ذاق الاول ‘‘

ترجمہ: حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاق دے دی پھر اس عورت نے دوسرا نکاح کر لیا پھر اس شخص نے بھی طلاق دے دی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کیا یہ عورت پہلے شخص کے لئے حلال ہو گئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں یہاں تک یہ بھی اس کے شہد سے چکھے (جماع کرے ) جیسا کہ پہلے نے چکھا تھا۔ (صحیح بخاری شریف ص۲۰۱۴،ج۵،صحیح مسلم ص۱۰۵۷،ج۲)

(۲) بخاری شریف کی روایت ہے :

’’عن نافع ؒکان ابن عمرؓ اذا سئل عمن طلق ثلاثا ً قال لوطلقت مرۃً اومرتین فان النبی صلی اللہ علیہ وسلم امرنی بھذا فان طلقتھا ثلاثاًحرمت حتی تنکح زوجاً غیرک‘‘ ۔

ترجمہ: حضرت نافعؒ روایت کر تے ہیں کہ جب ابن عمرؓ سے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جس نے اپنی بیوی کو تین طلاق دی تھیں تو آپ ؓ نے فرمایا اگر تو نے ایک یا دو طلاق دی ہو تی تو رجوع ہو سکتا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اسی کا حکم فرمایا تھا اور جبکہ تو نے تین طلاق دے دی ہیں تو بیوی حرام ہو گئی جب تک کہ وہ تیرے علاوہ کسی سے نکاح نہ کر ے ۔

(بخاری ص۲۰۱۵،ج۵)

(۳) صحیح مسلم شریف کی روایت ہے :

’’عن شعبی عن فاطمۃ بنت قیس قالت طلقنی زوجی ثلاثاً فاردت النقلۃ فاتیت النبی صلی اللہ علیہ وسلم فقال انقلی الیٰ بیت ابن عمک عَمَروابن ام مکتوم فاعتدی عندہ ‘‘ ۔

ترجمہ : شعبی ؒ سے مروی ہے کہ فاطمہ بنت قیسؓ نے فرمایا کہ میرے شوہر نے مجھے تین طلاق دے دیں تو میں نے عدت میں نقل مکانی کر نا چاہی تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضرہو ئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے چچازاد عمرو ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر چلی جا اور وہا ں عدت گذار (یعنی تین طلاق کو نافذ فرمادیا)۔

(مسلم شریف ح۲۸۱۸)

(۴) ایک طویل روایت میں ہے کہ حضرت حسن ؓ بن علی ؓ نے اپنی بیوی کو تین طلاق دے دیں وہ بہت روئیں آپؓ کو پتاچلاتو آپ ؓ کو افسو س ہو ا اور فرمایا:

’’لولاانی ابنت الطلاق لرجعتھا ولکنی سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایما رجل طلق امرأتہ ثلاثاًعندکل طہر تطلیقۃ اوعندرأس کل شہر تطلیقۃ ًاوطلقھا ثلاثاًجمیعاً لم تحل لہ حتی تنکح زوجاً غیرہ‘‘۔

ترجمہ :یعنی اگر میں نے اس کوبائنہ طلاق نہ دی ہو تی تو میں رجوع کر لیتا لیکن میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جس شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاق دے دیں ہر طہر میں ایک ایک کر کے یا ہر مہینے میں ایک ایک کر کے یا اکٹھی تین طلاق دے دی ہوں تو جب تک وہ عورت دوسرا خاوند نہ کر لے پہلے شوہر کے لئے حلال نہیں ہو تی ۔

(۵) حضرت ابن عمرؓ نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں ایک طلاق دی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھاتو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا رجوع کر لو تو اس پر ابن عمر ؓنے دریافت کیا :

’’ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ارأیت لوانی طلقتھا ثلاثاً اکان لی ان اراجعھا قال لا کانت تبین منک وتکون معصیۃً‘‘ ۔

ترجمہ :یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا فرماتے ہیں آپ اس بارے میں کہ اگر میں اس کو تین طلاق دے دیتا تو کیا میرے لئے رجوع جا ئز ہو تا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں وہ تجھ سے بائنہ ہو جاتی اور ایسا کر نا گناہ ہے۔

(سنن دارقطنی ص ۳۱ ج ۴، زادالمعاد ص ۲۵۷ ج ۲ ہندی)

(۶) اسی طرح صحیح حدیث ہے کہ:

’’عن معاذ ابن جبلؓ یقول سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا معاذمن طلق للبدعۃ واحدۃً او اثنین او ثلاثاًالزمناہ بدعتہ ‘‘

ترجمہ : حضرت:معاذ بن جبل ؓ سے مروی ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے معاذ ؓاگر کوئی شخص طلاق بدعی دے ایک دے یا دو دے یا تین دے تو ہم وہ طلاقیں اس پر نافذ کر دیں گے۔

(سنن دارقطنی ص۲۰ج۴،اغاثۃ الفھان ص۱۶۸ہندی )

(۷) اسی طرح صحیح حدیث ہے کہ :

’’عن ابراہیم بن عبداللہ بن الصامتؓ عن ابیہ عن جدہ قال طلق بعض آبائی امرأتہ الفاً فانطلق بنوہ الیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقالوا یا رسول اللہ ان ابانا طلق أمّنا الفاًفھل لہ من مخرج فقال ان اباکم لم یتق اللہ فیجعل لہ من امرہ مخرجاً بانت منہ بثلاثٍ علی غیرالسنۃ وتسعمائۃ وسبعۃ وتسعون اثم فی عنقہ ‘‘

ترجمہ :حضرت ابراہیم ؒ بن عبداللہ ؒ بن عبادۃ بن صامت ؓ نقل کر تے ہیں اپنے والد سے اور وہ دادا سے کہ (باپ دادا میں سے کسی نے اپنی بیوی کو ہزار طلاق دے دیں) تو ان کے بیٹے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو ئے اور عرض کیا ہمارے باپ نے ہماری ماں کو ہزار طلاق دے دیں ہیں تو کیا ان کے لئے راستہ (رجوع) ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہار ا باپ اللہ سے نہیں ڈرا (یعنی سنت طریقے پر طلاق نہیں دی) تو کیسے اس کے لئے راستہ (رجوع) ہو تین طلاق سے بیوی بائنہ ہو گئی۔ باقی ۹۹۷اس کی گردن پر گناہ ہے۔ (دارقطنی ص۲۰ج۴،زادالمعادص۲۵۷ج۲)

نیز تفاسیرمیں بھی یہ حکم بعض آیات سے مستنبط ہے جیسا کہ:

(۱) احکام القرآن میں ’’فان طلقھا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجاً غیرہ‘‘کی تفسیر میں ہے۔

’’فحکم بتحریمھاعلیہ بالثالثۃ بعد الاثنین ولم یفرق بعد ایقاعھا فی طہر واحدوفی اطہار فوجب الحکم بایقاع الجمیع علی ای وجہ اوقعہ من مسنون او غیرمنسون ومباح او محظور‘‘۔

یعنی دوکے بعد تیسر ی طلاق سے حرمت کا حکم لگایا ہے اور اس میں فرق نہیں کیا کہ ایک طہر میں دی گئی ہوں یا مختلف اطہار میں پس طلاقیں واقع ہو نے کا حکم واجب ہو گا۔ جس طرح بھی دی ہو چاہے مسنون طریقہ سے دی ہو یا غیر مسنون طریقہ سے، مباح طریقے سے دی ہو یا ممنوع سے ۔

اور اسی کے ذیل میں فرماتے ہیں :

’’وقال ھذہ الآیۃ تدل علی ایقاع الثلاث معاًمع کونہ منھیاًعنھا‘‘ :

ترجمہ:یہ آیت تین طلاق کے واقع ہو نے پر دلالت کر تی ہے اگر چہ ایسا کر نا ممنوع ہے ۔

(احکام القرآن للجصاص ص۸۳ج۲)

(۲) محلی ابن حزم میں ’’فان طلقھا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجاً غیرہ‘‘ کی تفسیر میں ہے :

’’فھذا یقع علی الثلاث مجموعۃ ومفرقۃ ولایجوز ان یخص بھذا الآیۃ بعض ذلک دون بعض بغیر نص‘‘۔

ترجمہ :یہ آیت تین طلاق کے اکٹھے اور علیحدہ علیحدہ واقع ہو نے پر دلالت کر تی ہے اور اس آیت سے اکٹھی اور علیحدہ علیحدہ میں تخصیص کر لینا بغیر نص کے جائز نہیں۔

(محلی ابن حزم ص۱۷۰ج۱۰)

(۳) ومن یتق اللہ یجعل لہ مخرجاً…الآیۃ

رئیس المفسرین حضرت ابن عباس ؓکے نزدیک اس آیت سے مراد یہ ہے کہ اللہ سے ڈرو اور اکٹھی تین طلاق نہ دو اس صورت میں اللہ نے تمہارے لئے رجعت کا مخرج رکھا ہے اور جو اللہ سے نہ ڈرے اور اکٹھی تین طلاق دے دے اس کے لئے کو ئی مخرج نہیں یعنی بیوی حرام ہو جاتی ہے اور جب ابن عباس ؓ سے اس شخص کے بارے میں جس نے اپنی بیوی کو اکٹھی تین طلاق دیںدریافت کیاگیا تو آپ ؓ نے فرمایا :

’’قال ابن عباسؓ وانک لم تتق اللہ فلااجد لک مخرجاً عصیت ربک وبانت منک امرأتک ‘‘۔

ترجمہ: ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ تو اللہ سے نہیں ڈرا تو میں تیرے لئے مخرج (رجوع)نہیں ڈھونڈ سکتا تو نے اپنے رب کی نافرمانی کی تیری بیوی تجھ پر بائنہ ہو گئی۔

(سنن ابی دائود ص ۲۶۰ج۲،طحاوی ص۳۷ج۲)

(۴) امام بخاری ؒ نے کتاب صحیح بخاری میں ’’الطلاق مرتان …الخ‘‘سے بھی یہی استدلال کیا ہے ۔

باب من اجازالطلاق الثلاث لقول اللہ تعالیٰ الطلاق مرتان فامساک بمعروف اوتسریح باحسان۔ (صحیح بخاری ص۲۰۱۳ج۵)

نیز اسی پر صحابہ کرام ؓ کا اجماع ہے:

حضرت عمرؓ ،حضرت عثمان غنی ؓ ،حضرت علی ؓ ،ام المؤمنین حضرت عائشہؓ ،ام المؤمنین حضرت اُم سلمہؓ، حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ ،حضرت عبداللہ ابن عباسؓ ،حضرت عبداللہ ابن عمرؓ ،حضرت ابوہریرہؓ ،حضرت انسؓ،حضرت حسن بن علی ؓ ،حضرت ابو قتادہؓ ، حضرت زیدبن ثابتؓ ،حضرت مغیرۃ بن شعبہ ؓ ،حضرت عمران بن حصین، حضرت عبداللہ بن مغفل ؓ ان تمام حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا مسلک تین طلاق کے تین ہونے کا ہے چاہے اکٹھی دی جائیں چاہے الگ الگ۔ (تفصیل وحوالہ جات کے لئے خیر الفتاویٰ ص ۳۴۵ ج ۵)

اور اسی پر جمہور ائمہ کا اتفاق ہے :

’’فالکتاب والسنۃ واجماع الصالحین تو جب ایقاع الثلاث معاً وان کان معصیۃ‘‘۔ (احکام القرآن للجصاص ،ص۸۵ج۲)

چنانچہ فقہ حنفی میں ہے :

’’وذھب جمہور الصحابۃ ؓ والتابعینؒ ومن بعدھم من ائمۃؒ المسلمن الیٰ انہ یقع ثلاثاً ‘‘ (فتح القدیر ص۴۶۹ج۳)۔

اور فقہ مالکی میں ہے :

’’وکلماطلق من ذلک یلزمہ‘‘ (مواہب الجلیل ص۳۹ج۳)۔

فقہ شافعی میں ہے :

’’قال شافعیؒ ومالکؒ وابو حنیفہؒ واحمد ؓ وجماہیر العلماؒء من السلف والخلف یقع ثلاث ‘‘ (نووی شرح صحیح مسلم ص۷۰ج۱۰)

اسی طرح فقہ حنبلی میں ہے :

’’وان طلق ثلاثاً بکلمۃ واحدۃ وقع ثلاثاً وحرمت علیہ حتی تنکح زوجا ً غیرہ‘‘۔

(المغنی ص۲۸۶، ج۷)

پس احادیث صحیحہ اور اجماع امت سے یہ بات ثابت ہو گئی کہ ایک مجلس کی ’’تین طلاق تین ہی ہو تی ہیں ‘‘ سعودی عرب کی کمیٹی ’’ہیئۃ کبار العلماء ‘‘ کایہی فیصلہ ہے۔ (مجلہ بحوث الاسلامیہ ۱۳۹۳x0601ھ)

اہل حدیث کے علماء کے ارسال کر دہ فتویٰ میں مسلم شریف کی روایت جو کہ ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ ’’زمانہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور خلافت صدیقیؓ اور ابتدائی دور فاروقی ؓ میں تین طلاق ایک ہوتی تھی …الخ‘‘ اس کے جوابات درجِ ذیل ہیں:

(۱) یہ حدیث سنداً ومتناً مضطرب ہے سند میں کبھی ’’عن طاؤس عن ابیہ ان اباصہبائ‘‘ اور کبھی ’’عن طاؤس ان اباصہبائ‘‘ ہے اور متن میں کبھی ’’لم یکن الطلاق ثلاثاً ‘‘اور کبھی ’’کانت الثلاث تجعل واحداً‘‘ اور کبھی ’’کان الطلاق علی عہد رسول اللہ ﷺ ‘‘ اور کبھی ’’الم یکن الطلاق‘‘ ہے اس لئے یہ روایت احادیث صحیحہ کے مقابلے میں قابل اعتبار نہیں

(۲) یہ حدیث منکر ہے لہٰذا احادیث صحیحہ کے مقابلے میں قابل حجت نہیں:

’’طاؤس مع فصلہ وصلاحہ یروی اشیاء منکرۃ وعنھا ہذا الحدیث ‘‘ احکام القرآن للقاضی اسماعیل (الطلاق ثلاث ص۱۴۵) لھیئۃ الکبار العلماء ۔

(۳) یہ حدیث شاذ ہے اس لئے بمقابلہ صحیح متروک ہے ’’قال ابن عبدالبر شذ طاؤس فی ھذاالحدیث‘‘

(الطلاق ثلاث ص۱۴۵)

(۴) یہ مذہب شاذ ہے ’’انہ مذہب شاذ ‘‘ (فتح الباری شرح صحیح بخاری ص۳۶۳ج۹)

(۵) یہ مجہول روایت ہے :

’’قال المنذری روایت عن الطاؤس مجہولۃ ‘‘ (عون المعبود ص۱۹۷ج۶)

(۶) یہ مرجوح روایت ہے :

’’ عن ابن منذر انہ لایظن بابن عباسؓ انہ یحفظ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم شیأً ویفتی بخلافہ فیتعین المصیر الی الترجیح ‘‘ (فتح الباری ص۳۶۳ج۹)

(۷) اس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تقریر نہیں بلکہ یہ تو صحابی کا قول ہے پس مرفوع روایت کے مقابلے میں متروک ہے ’’ماثبت فیہ تقریرہ صلی اللہ علیہ وسلم فلاحجۃ فیہ‘‘ ۔

(فتح الباری شرح صحیح بخاری ص۳۶۵ج۹)

(۸) طلاق ثلاث سے مراد طلاق بتہ ہے :

’’حمل قولہ ثلاثاً علی ان المراد بھا لفظ البتۃ کماتقدم فی حدیث رکانۃؓ‘‘۔

(فتح الباری ص۳۶۵ج۹)

(۹) یہ حدیث منسوخ اور متروک العمل ہے کیونکہ راوی کا عمل اس کے خلاف ہے ’’ان ھذا الحکم منسوخ ‘‘

(فتح الباری ص۳۶۴، ج۹)

(۱۰) یہ حدیث غیر مدخولہ کی طلاق کے بارے میں ہے۔ (ترجمۃ الباب نسائی ص۸۳ج۲)

(۱) رکانہ ؓ والی روایت : جس میں ’’طلق ثلاثاً‘‘ ہے ضعیف ہے ’’ان رکانۃ طلق ثلاثاً فنجعلھا واحدۃ فروایۃ ضعیفۃ ‘‘ ۔ (نووی علی مسلم ص۴۷۸ج۱،محلی ابن حزم ص۱۶۸ج۱۰)

(۲) اس کی سند متکلم فیہ ہے اس لئے صحیح روایات کے مقابلے میں قابل اعتبار نہیں ’’عن ابن المسیب انہ کذب عکرمۃ وقال کذبہ عطار ‘‘ (میزان الاعتدال ص۲۰۸ج۲)

(۴) اس روایت میں اضطراب ہے اس لئے حجت نہیں ’’وقال ابو عیسیٰ وسألت محمد اً عن ھذا الحدیث فقال فیہ اضطراب‘‘ (جامع ترمذی ح ۱۰۹۷)

(۵) متعدد صحیح روایات سے ثابت ہے کہ رکانہؓ نے طلاق بتہ دی تھی ’’انما الصحیح منھا ما قدمناہ انہ طلق البتۃ ‘‘

(نووی علی مسلم ص۷۱ج۱۰،(ترمذی ص۲۲۲ج۱،ابن ماجہ ص۱۴۹ج۱)ہندی،دارقطنی ص۳۳ج۳)

غیر مقلدین کے فتوے پر عمل کر نا جا ئز نہیں۔ غیر مقلدین کا یہ فتویٰ دینا کہ تین طلاق ایک ہو تی ہے فقہی خدع (دھوکہ)ہے اس دھوکے میں پڑکر اپنی دنیا وآخرت برباد نہیں کر نی چاہئے ۔