+(00) 123-345-11

حضرت عمر فاروق اور عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے خود سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روزہ مغرب کی نماز کے بعد افطار کیا تھا جبکہ ہم اذان پر ہی افطار کر لیتے ہیں؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تو کسی حدیث میں بھی نمازِ مغرب کے بعد روزہ افطار کرنا منقول نہیں بلکہ خادم رسول حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

مارأیت النبی صلی اللہ علیہ وسلم قط صلی صلاۃ المغرب حتی یفطر ولو کان علی شربۃ من مائ۔ رواہ ابو یعلی والبزار والطبرانی فی الاوسط و رجال ابی یعلی رجال الصحیح (مجمع الزوائد ۳:۱۵۵)

میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی نہیں دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ افطار کرنے سے پہلے نمازِ مغرب پڑھی ہو اگرچہ پانی کا ایک گھونٹ پی کر (افطاری کی ہو)۔

البتہ حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہما کے بارے میں نمازِ مغرب کے بعد روزہ افطار کرنے کا تذکرہ ملتا ہے۔ (دیکھئے السنن الکبریٰ للبہیقی ۴:۲۳۸ و موطا امام محمد ص :۱۸۸) مگر ان کے علاوہ تمام صحابہ کرام میں سے کسی سے بھی افطار میں تاخیر کرنے کا ذکر نہیں ملتا، بلکہ خود حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے:

لایزال الناس بخیر ما عجلوا الفطر (مشکوٰۃ۱:۱۷۵)

لوگ ہمیشہ خیر کے ساتھ رہیں گے جب تک افطاری میں جلدی کرتے رہیں گے۔

اور ارشاد فرمایا:

قال اللہ تعالٰی احب عبادی الی اعجلھم فطراً۔ (مشکوٰۃ ۱:۱۷۵)

(اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میرے بندوں میں مجھے سب سے زیادہ محبوب وہ ہے جو روزہ افطار کرنے میں جلدی کرے)۔

اور ارشاد فرمایا:

لایزال الدین ظاھرا ماعجل الناس الفطر لان الیھود والنصاریٰ یؤخرون۔ (مشکوٰۃ ۱:۱۷۵)

(دین ہمیشہ غالب رہے گا جب تک لوگ افطار کرنے میں جلدی کرتے رہیں گے، اس لیے کہ یہود و نصاریٰ روزہ افطار کرنے میں دیر کرتے ہیں)۔

اور جلیل القدر تابعی حضرت عمرو بن میمونؒ فرماتے ہیں:

کان اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم اسرع الناس افطارا وابطأھم سحورا۔ (فتح الباری ۴:۱۹۹)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ افطاری میں سب سے جلدی کرنے والے اور سحری میں تاخیر کرنے والے تھے۔

حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہما کے افطار کو مؤخر کرنے کی درجِ ذیل وجوہات تھیں۔

(۱) جب کسی کام کا اہتمام اس کی حیثیت سے بڑھ کر کیا جانے لگے او رمستحب امر کو سنیت اور وجوب کا درجہ دے دیا جائے تو مقتدا و پیشوائے قوم ہر عمل کو اس کی حیثیت اور درجہ میں رکھتے ہوئے ادا کرنے کی وضاحت کے سلسلے میں کبھی خلاف اولیٰ اور مرجوح جانب کو اختیار کرتے ہوئے اس پر عمل کرتے ہیں، تاکہ لوگ جو اتنی شدت سے اس پر کار بند ہیں اور اس عمل کی حیثیت سے زائد اس کو درجہ دے رہے ہیں اس کا سدباب ہو اور اس غلو اور شدت سے دین کو محفوظ رکھتے ہوئے قوم و ملت کی صحیح راہنمائی فرمائیں۔

(۲) یہ بھی ہو سکتا ہے کہ نماز سے قبل حضرت عمر اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہما کسی معمولی چیز مثلاً پانی یا کھجور سے افطار فرما لیتے ہوں، اور کھانا نماز کے بعد تناول فرماتے ہوں تو راوی نے نماز کے بعد کھانا تناول فرمانے کو افطار سے تعبیر کرتے ہوئے کہہ دیا کہ وہ نماز کے بعد افطار کرتے یعنی کھانا تناول فرماتے تھے۔

(۳) اور ممکن ہے کہ کسی وقت ان کے پاس افطاری کا سامان نہ ہو اگر کہیں افطاری کے لیے جائیں تو تعجیل مغرب میں خلل آئے گا، اس لیے انہوں نے نمازِ مغرب کی تعجیل کو تعجیل افطار پر ترجیح دی اور نماز پڑھ لینے کے بعد روزہ افطار فرمایا۔