+(00) 123-345-11

میرے گھر میں تقریباً 14 تولے زیور ہے جس کی تقسیم کچھ اس طرح ہے۔

۱۔ 5 تولے(بیوی کا) جو اس کو اس کے والدین نے اس کی شادی پر دیا تھا اور جس کی مالک وہ خود ہے۔

۲۔ 2.25 تولے(بیوی کا) جو اس کو حق مہرمیں میں نے دیا تھا جس کی مالک وہ خود ہے۔

۳۔ 4تولے کی چوڑیاں اور آدھے تولے کی انگوٹھی جو اب میری ملکیت ہیں۔

۴۔ 1تولہ زیور میری والدہ کا ہے جس کی مالک وہ خود ہیں۔

۵۔1 تولہ میری بہن (غیر شادی شدہ) کا زیور جس کی مالک وہ خود ہے۔

گھر میں سب اکھٹے رہتے ہیں والد ریٹائرڈ ہیں تقریباً 14تولہ زیور جس میں مختلف لوگوں کا حصہ ہے (جیسا کہ بیان کیا گیا ہے) اس تمام زیور کی زکوٰۃ میرے لیے دینا فرض ہے جب کہ میری آمدنی 12000ہزار فی مہینہ اور والد کی پنشن 5500 روپے فی مہینہ ہے۔

مسئلہ(2)۔ ہم نے اپنا ایک گھر 4000ہزار روپے کرایہ پر دے رکھا ہے جو میرے والد کی ملکیت ہے کیا اس پر بھی زکوٰۃ دینا فرض ہے؟

زکوٰۃ سونے ، چاندی، مال تجارت اور نقد رقم (روپے پیسے وغیرہ) پر واجب ہے شریعت کی طرف سے ان چیزوں پر زکوٰۃ واجب ہونے کی جو مقدار متعین کی گئی ہے وہ درج ذیل ہے۔

(۱) سونا: ساڑھے سات تولہ

(۲) چاندی: ساڑھے باون تولہ

(۳) مال تجارت :ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر

(۴) نقد رقم: ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر

اگر کسی کے پاس مذکورہ اشیاء علیحدہ علیحدہ بقدر نصاب نہ ہوں البتہ ان میں سے کل یا بعض مل کر ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہوں تب بھی زکوٰہ واجب ہوتی ہے سوال میں ذکر کردہ تفصیل سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہر شخص کی ملکیت میں بقدر نصاب سونا نہیں ہے اور نہ ہی اس کے علاوہ کوئی اور مال زکوٰۃ ہے اس لیے شرعاً ان حضرات پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے۔

(۲) کرایہ کے مکانات پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوتی تاہم حاصل شدہ کرایہ بقدر نصاب ہونے کی صورت میں اس پر بھی زکوٰۃ واجب ہوتی ہے۔

جس شخص پر زکوٰۃ واجب ہو زکوٰۃ کی ادائیگی بھی اسی کی ذمہ لازم ہوتی ہے البتہ اجازت کے ساتھ دوسرے کی زکوٰۃ ادا کرنا جائز ہے۔

لما فی’’ بدائع الصنائع‘‘ اموال الزکاۃ انواع الثلاثۃ: احدھما الأثمان المطلقۃ- والثانی اموال التجارۃ (۲/۱۰۰) رشیدیہ

وفیہ أیضا :

یعتبر فی التقویم منفعۃ الفقراء (۲/۱۰۸)