+(00) 123-345-11

کیا بیوی کے لئے اپنے نام کے ساتھ شوہر کے نام کا لاحقہ لگانا مثلا زینب خادم کہنا جائز ہے؟ بعض حضرات کا مؤقف یہ ہے کہ قرآن پاک اور احادیث مبارکہ کی روشنی میں عورت کے لئے باپ کے علاوہ کسی اور کے نام کا لاحقہ اپنے نام کے ساتھ لگانا اپنے نسب کو بدلنے میں داخل ہے۔ لہٰذا بیوی کے لئے اپنے نام کے ساتھ شوہر کی طرف نسبت کرتے ہوئے اس کے نام کالاحقہ لگانا ناجائز ہے۔

قرآن پاک اور احادیث مبارکہ میں جہاں اپنے آباء کی طرف نسبت کرنے اور غیر آباء کی طرف نسبت نہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے اس سے مراد نسب کے اعتبار سے نسبت کرنا ہے یعنی باپ یا دادا وغیرہ کے علاوہ کسی اور کی طرف باپ یا دادا ہونے کی حقیقی نسبت کرنا ناجائز اور گناہ ہے۔ جیسا کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس ممانعت کے حکم سے قبل حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بیٹا کہتے ہوئے یوں تذکرہ کرتے تھے زید بن محمد تو اللہ تعالیٰ نے اس بات سے منع فرما دیا اور حکم دیا کہ’’ ادعوھم لآبائھم ھواقسط عنداللّٰہ (الاٰیۃ۳۳/ ۵)‘‘ یعنی ان کی نسبت ان کے آباء کی طرف کرکے ان کو بلائو، یہ اللہ کے نزدیک زیادہ انصاف والی بات ہے۔

اس کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے زید بن محمد کی بجائے زید بن حارثہ کہنا شروع کر دیا۔ اس سے یہ واضح ہے کہ کسی شخص کا اپنے باپ کو چھوڑ کر کسی اور کی طرف حقیقی بیٹا ہونے کی نسبت کرنا ناجائز اور گناہ ہے۔

مگر سوال میں زیر بحث مسئلہ میں یہ ممنوعہ صورت سرے سے موجود نہیںجس کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے:

-1جو خاتون نکاح کے بعد اپنی نسبت اپنے شوہر کی طرف کرے اور اپنے نام کے ساتھ لاحقہ کے طور پر اس کا نام لگائے اس کا ہرگز یہ دعویٰ نہیں ہوتا کہ وہ اس شوہر کی بیٹی ہے اور وہ شوہر اس کا باپ ہے اگر اس کا یہ دعویٰ ہوتا کہ وہ اس شوہر کی بیٹی ہے تو ان کا باہم نکاح ناجائز ہوتاحالانکہ ان دونوں کا نکاح عملاً اس بات کی نفی کرتا ہے۔

-2نیز اس لاحقہ لگانے کے انداز میں غور کیا جائے تو اس کی ترتیب یوں ہے مثلاً زینب خادم کہ اس میں بیوی کا نام زینب اور شوہر کا نام خادم ہے اور دونوں کے درمیان ابنیت کے اظہار کیلئے نہ کوئی لفظ موجود ہے اور نہ زبانی اس بات کا دعویٰ ہے، عربی ترکیب کے حوالے سے ان دونوں الفاظ کے مجموعہ کو مرکب اضافی قرار دیا جا سکتا ہے جسکا مطلب ہوگا خادم کی زینب یعنی وہ زینب جس کی نسبت خادم کی طرف ہے او ریہ بات بالکل عیاں ہے کہ اس نسبت سے نکاح کے ذریعہ پیدا ہونے والے تعلق کا اظہار درست طریقہ پر ہو رہا ہے کہ یہ زینب اب خادم کی ہے یعنی اس کی منکوحہ ہے کسی اور کی طرف منسوب نہیں ہے۔

-3مذ کورہ لفظ خلافِ واقعہ تب ہوتا جبکہ یہ ترکیب اس طرح ہوتی زینب بنت خادم یعنی خادم کی بیٹی زینب اور ایسا نہ دعویٰ ہے نہ تصور ہے او رنہ وہم ہے۔

-4مذکورہ ترکیب عرفاً مروج ہو چکی ہے اور اس میں کوئی مخطور شرعی بھی لازم نہیں آتا اس لیے اس کو ممنوع قرار دینے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔

-5جیسا کہ موجودہ دور میں اہل عرب کے ہاں یہ بات رواج پاچکی ہے کہ وہ ابن یا بنت کا لفظ حذف کر کے باپ اور بیٹے کے نام کو ایک ترکیب میں جمع کر دیتے ہیں جس سے ابنیت کا اظہار مقصود ہوتا ہے حالانکہ یہ طریقہ متقدمین کے ہاںرائج نہ تھا چنانچہ اسماء الرجال کی کتابوں سے یہ واضح ہے بلکہ متقدمین کے دور میں اگر کوئی ایسا انداز اختیار کرتا تو یہ اسماء الرجال میں تصحیف اور غلطی شمار ہوتا، کتب احادیث کا مطالعہ کرنے والے پر یہ بات واضح ہے لیکن بعض مقامات پر اب اس ترکیب کا عرف ہونے کی وجہ سے مذکورہ ترکیب کو ناجائز نہیں کہا جاسکتا اسی طرح ہمارے معاشرے میں شوہر کے نام کو لاحقہ کے طور پر بیوی کے نام کے ساتھ لگانے کا بھی عرف ہو چکا ہے لہٰذا یہ کسی طرح ان آیات و احادیث کی وعید کے تحت داخل نہیں ہوتا جس میں اپنا نسب بدلنے کی ممانعت منقول ہے۔