+(00) 123-345-11

کوئٹہ میں یہ رسم ہے کہ اگر دو آدمیوں کے درمیان مناظرہ ہو جائے تو یہ بات طے ہوتی ہے کہ دونوں آگ میں سے گزرتے ہیں جس کو نقصان نہ پہنچا وہ حق پر ہے اور جس کو نقصان پہنچا وہ حق پر نہیں کیا یہ طریقہ درست ہے؟

کسی شخص کی صداقت یا کذب کوجانچنے کیلئے جو طریقہ بعض علاقوں میں رائج ہے کہ اسے آگ پر چلنے کا کہا جاتا ہے اگر اسے کوئی تکلیف نہ پہنچے تو وہ سچا شمار ہوتا ہے اوراگر وہ جل جائے تو اسے کاذب خیال کرتے ہیں یہ طریقہ قرآن وسنت کی نصوص سے ثابت نہیں اور نہ ہی یہ طریقہ کسی کے صدق و کذب کو پرکھنے کا معیاری طریقہ ہو سکتا ہے۔ نبی کریم ا کے مبارک دور یا حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین و تابعین عظام کے بابرکت ادوار میں کسی کے جھوٹا یا سچا ہونے کیلئے اس قسم کے طریقہ کو ہرگز نہیں اختیار کیا گیا۔

مذکورہ طریقہ نہ مباھلہ کی تعریف میں آتا ہے اورنہ لعان ہی میں شامل ہو سکتا ہے ، مباھلہ میں فریقین اپنے اپنے صدق کے اظہار کیلئے خدا سے دعا گو ہوتے ہیں کہ جو شخص جھوٹا ہو اس پر اللہ کا عذاب نازل ہو ۔ اور لعان میاں بیوی کے درمیان اتہام کی صورت حال پیدا ہونے کے بعد لعنت اور غضب کے الفاظ اور جملوں کے تبادلہ کے ساتھ فرقت اور جدائی کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ جبکہ آگ پر چلنے کے مروج طریقہ میں ایک شخص اپنے آپ کو آگ پر چلاتا ہے اور نفس کو بلاضرورت شرعیہ ایذاء کیلئے دھکیلتا ہے حالانکہ ہر انسان پر اس کے نفس کا حق ہے ۔ اس کو غیر شرعی تکلیف میں مبتلا کرنا جائز نہیں ، اسی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نوحہ کرنے اور اپنے جسم کو مارنے پیٹنے سے منع فرمایا ہے اور خود کشی کو حرام قرار دیا ہے ۔

دوسری بات یہ ہے کہ آج کل شعبدہ بازی کے دور میں جہاں لوگ سحر اور کہانت میں مبتلائے معصیت ہوتے جا رہے ہیں وہاں شعبدہ بازوں کا ایک جال بچھا ہوا ہے اور کئی ایسے کیمیکل وجود میں آچکے ہیں کہ انکے استعمال کے بعد آگ اثر انداز نہیں ہوتی نیز جادو اور سحر کے ذریعے جنات و شیاطین کے اثرات کا دخل بہت عام ہو چکا ہے ۔ اس وجہ سے بھی موجودہ طریقہ کو صدق و کذب کو پرکھنے کا معیاری طریقہ شمار نہیں کیا جاسکتا ۔ اگر مبتلائے واقعہ شخص نیک اور متقی و پرہیز گار ہو اور اس سے ایسا عمل بھی ظاہر ہو کہ اسے آگ کچھ تکلیف نہ دے تو زیادہ سے زیادہ یہ شخص مذکور کی کرامت ہوگی اور کسی اللہ کے ولی کی کرامت بذاتِ خود یقینی ذریعہ علم نہیں جب تک کہ اسکے ساتھ خدا کا حکم یا نبی کی ہدایت نہ ملی ہو ۔

کسی کے صدق و کذب کو پہچاننے کاضابطہ اور دستور دینِ حنیف میں جو بیان ہوا وہی قابلِ اتباع ہے کہ مُدعی اپنے دعویٰ کے اثبات کیلئے دلیل و بینہ پیش کرے یا دلیل نہ پیش کر سکنے کی صورت میں مُد عیٰ علیہ کی قسم کے مطابق فیصلہ کر دیا جائے اور حضور اکرم ا بھی ساری زندگی اسی ضابطہ کے مطابق فیصلے کرتے رہے اور اسلاف نے بھی اسی کی اتباع کی ۔

باقی بعض اسلاف سے جو زہر کو پی جانے یا اپنے متعلق ایسے اقدامات منقول ہیں جو بظاہر دین کے اس دستور سے ھٹے ہوئے محسوس ہوں تو وہ اعتماد علی اللہ اور یقین کامل کی جذباتی کیفیت میں آکر اس طرح کا عمل کر جاتے تھے جو بعد والوں کیلئے قابلِ تقیلد نہ تھے اور نہ بعد والوں میں توکل و اعتماد کا وہ درجہ موجود ہے جسکی وجہ سے انہیں بھی ایسی صورت حال اختیار کرنے کی ترغیب دی جائے۔

خلاصہ یہ کہ مذکورہ طریقہ کہ اپنے آپ کو آگ پر چلانا سراسر غیر شرعی اور خود کشی کے مترادف ہے اور اس پر حاکم وقت شرعی حدود کا خیال رکھتے ہوئے مناسب تعزیر تجویز کر سکتا ہے تاکہ اس قسم کے واقعات کی روک تھام ہو ۔