+(00) 123-345-11

ایک لڑکی شادی کے بعد25دن شوہر کے گھر رہی توشوہر لگاتار رات کو ڈنڈے سے پٹائی کرتا اور پلاس سے گوشت نوچتا زخم پر زخم بنائے سر کے بالوں کو بھی تقریباً نکال دیا کافی دنوںکے بعد لڑکی کو ماں باپ لینے گئے تو سارے واقعہ کا علم ہوا ماں باپ نے لڑکی دوبارہ بھیجنے سے انکار کر دیا شوہر کے گھر رشتہ داروں نے صلح صفائی کی غالب گمان یہ ہے کہ لڑکے کو آمادہ کیا کہ مجھ سے غلطی ہو گئی ہے لڑکی واپس چلی گئی کچھ عرصہ بعد لڑکی کا بھائی دوبارہ لینے گیا تو انہوں نے بھیجنے سے انکار کر دیا لڑکی سے پوچھا تو اس نے کہا کہ اب بھی رات کو مار کبھی کبھی پڑتی ہے اب کیا کرنا چاہیے لڑکی کے ماں باپ اگر وہ لڑکی نہ بھیجیں تو کیا یہ درست ہے؟ کیونکہ وہاں عدالت پولیس وغیرہ نہیں ہے ہر ایک اپنی طاقت کا استعمال کرتا ہے۔اس صورت میں لڑکے کو مارنے کی گنجائش ہے یا نہیں اگر ہے تو کہاں تک ہے؟

اگر واقعی شوہر نے عورت پر ظلم و زیادتی کی ہے اور اسے ناجائز مار ا ہے تو عورت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ عدالت سے رجوع کر کے اس کو سزا دلوائے اور عدالت وغیرہ نہ ہونے کی صورت میں احسن طریقہ سے مواخذہ کیا جائے اور معاف کر دینا سب سے بہتر ہے۔

وان تعفوا اقرب للتقویٰ (الایۃ)

فی الدر المختار:

(ادعت علی زوجھا ضربا فاحشاً و ثبت ذلک علیہ عزر)

وفی الشامیۃ تحتہ:

(قولہ ضربا فاحشا )قید بہ لانہ لیس لہ ان یضربھا فی التادیب ضرباً فاحشًا و ھوالذی یکسر العظم یخرق الجلد او یسودہ کما فی التاتارخانیۃ، قال فی البحر وصرحوا بانہ اذا ضربھا بغیر حق و جب علیہ التعزیر ای وان لم یکن فاحشا (۴ :۷۹)

اگرمرد واقعی ظلم کرتا ہے اور عورت کو سختی میں رکھتا ہے تو عورت وہاں سے نکلنے کا مطالبہ کر سکتی ہے اور عورت کے اولیاء بھی اس کو گھر بلا کر گھر میں روک سکتے ہیں نیز اگر ان کی طرف سے یہ مطالبہ ہو کہ مرد اپنے گاؤں کو چھوڑ کر ہمارے قریب آکر کہیں رہائش پذیر ہو جائے تاکہ ان کے احوال کی خبر گیری ہوتی رہے تو وہ اس بارے میں بھی حق بجانب ہوں گے۔

فی رد المحتار:

قد یکون الزوج غیر مامون علیھا یرید نقلھا من بین اھلھا لیؤذ یھا او یا خذ مالھا بل نقل بعضھم ان رجلا سافر بزوجتہ و ادعی انھا امتہ و باعھا فمن علم منہ المفتی شیئاً من ذلک لا یحل لہ ان یفتی بظاہر الروایۃ … ولیس ھذا خاصا بھذہ المسئلۃ بل لو علم المفتی انہ یرید نقلھا من محلۃ الی محلۃ اخری فی البلد بعیدۃ عن اھلھا لقصد اضرارھا لا یجوز لہ ان یعینہ علی ذلک (۳ :۱۴۶، ۱۴۷)

وفیہ: ولو قالت انہ یضربنی ویؤذینی فمرہ ان یسکننی بین قوم صالحین فان علم القاضی ذلک زجرہ ومنعہ من التعدی فی حقھا والا یسأل الجیران عن صنیعہ فان صدقواھا منعہ عن التعدی فی حقھا ولا یترکھا ثمۃ ، وان لم یکن فی جوارھا من یوثق بہ او کانوا یمیلون الی الزوج امرہ باسکانھا بین قوم صالحین ا ھ ولم یصرحوا بانہ یضرب وانما قالو زجرہ ولعلہ لانھا لم تطلب تعزیرہ وانما طلبت الا سکان بین قوم صالحین (۳ : ۶۰۲)