+(00) 123-345-11



۱۔ مسئلہ یہ ہے کہ صوبہ سرحد کے شمالی علاقہ جات کی طرف بعض علاقوں میں یہ رواج ہے کہ میت کے دفنانے کے کچھ عرصہ بعد قبر کی مرمت کرتے ہیں اور درمیان میں مٹی ڈال دیتے ہیں، جس کی وجہ سے قبر زمین سے بلند ہوجاتی ہے۔ تقریباً دو بالشت کی مقدار یا اس سے بھی زیادہ۔ تو کیا یہ طریقہ شرعاً جائز ہے یا نہیں؟ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو قبروں کے ہموار کرنے کا حکم دیا تھا اس کا کیا مطلب ہے؟ اور اس حدیث کی تشریح کی روشنی میں مذکورہ عمل کی کیا حیثیت ہے واضح فرمائیں۔

۲۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ بعض مساجد میں لوگوں نے یہ طریقہ بنایا ہوا ہے کہ سردیوں کے دنوں میں جمع ہوجاتے ہیں، اور پھر قبرستان کی لکڑیاں جن کو وہ قبرستان سے کاٹ کر لاتے ہیں یا کوئی خود گرجائے تو اٹھا کر مسجد میں لاتے ہیں اور پھر سردیوں میں آگ جلا کر مسجد کے باہر سب اس کے ارد گرد بیٹھتے ہیں تو کیا قبرستان کے درخت اس طرح سے کاٹ کر اہل محلہ کا خود یا تبلیغی جماعت والوں کا اس سے آگ جلانا جائز ہے یا نہیں اور اس میں قبرستان کے واقف کی نیت کا اعتبار ہوگا یا نہیں؟ اگر قبرستان کے واقف نے (وقف کرنے والے نے) کوئی نیت نہ کی ہو تو پھر کیا حکم ہوگا؟

۱۔ مستحب یہ ہے کہ قبر کی اونچائی ایک بالشت یا اس سے کچھ زائد ہو۔ ایک بالشت سے بہت زیادہ قبر کو اونچا کرنا مکروہ تحریمی ہے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر کو پختہ بنانے سے منع کیا ہے لہٰذا اہل علاقہ کا قبر کو دو بالشت تک اونچا کرنا مکروہ تحریمی ہے۔ باقی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی حدیث جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کوقبریں ہموار کرنے کا حکم دیا یہ ترمذی کتاب الجنائز کے ’’باب تسویۃ القبر‘‘ میں ہے۔ شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتھم العالیہ فرماتے ہیں کہ اس کا مطلب ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قدر مسنون و مستحب سے زائد کو ہموار کرنے کا حکم دیا ہے۔ (درس ترمذی : ۳؍۳۲۴)

-2۱۔ وقف میں واقف (وقف کرنے والے) کی نیت کا اعتبار ہوتا ہے۔

۲۔اگر قبرستان کسی شخص کی مملوکہ زمین میں ہو اس میں مالکوں کی اجازت کے بغیر کسی قسم کا تصرف کرنا جائز نہیں ہے۔

۳۔اگر قبرستان وقف کی زمین میں ہو اور واقف کی نیت معلوم نہ ہو اس کے درخت (یا کوئی اور منافع) ذاتی استعمال میں لانا صحیح نہیں ہے۔ ان کو قبرستان کے مصالح میں خرچ کیا جائے۔

لہٰذا صورت مسئولہ میں اگر واقف کی نیت معلوم ہوجائے تو اس کے مطابق قبرستان کے منافع استعمال کئے جائیں۔اور اگر واقف کی نیت معلوم نہ ہو۔ تو اس کا مصرف قبرستان ہے۔ کسی اور کے لئے استعمال کرنا صحیح نہیں ہے۔

کما فی ’’اعلاء السنن‘‘:

وفی الطحطاوی علی قول صاحب الدر المختار، یحرم البناء علیہ للزینۃ ویکرہ للاحکام بعد الدفن۔ (۹؍۳۱۸ : ادارۃ القران)

وفیہ ایضا:

وروی عن محمد رحمہ اللہ تعالی انہ لابأس بذلک فتحمل الکراھۃ علی الزیادۃ الفاحشۃ وعدمھا علی القلیلۃ المبلغۃ لہ مقدار شبرا وما فوقہ ۔

وفی ’’الدر المختار‘‘:

ولا یجصص للنھی عنہ ولا یطین ولا یرفع علیہ بناء وقیل لا بأس۔ (۲؍۲۳۷)

وفی ’’بدائع الصنائع‘‘:

والواجب ان یبدأ بصرف النوع الی مصالح الوقف من عمارتہ واصلاح من بنائہ وسائر مؤناتہ التی لا بد منھا ۔ (۵؍۳۳۰ : بیروت)

وفی ’’الدر المختار‘‘:

شرط الواقف کنص الشارع الخ۔ (۴؍۴۳۳ : سعید)