+(00) 123-345-11

کسی غیر مسلم ہندو و عیسائی وغیرہ کے بیمار ہونے یا وفات پر ان کے ہاں عیادت اور تعزیت کیلئے جانا درست ہے یا نہیں؟ تفصیل سے وضاحت فرمائیں۔

اہل کتاب یہودی اور عیسائی کی تعزیت اور عیادت کیلئے جانا جائز اور درست ہے اور باہمی گفتگو میں ہر لحظہ یہی تصور رکھے کہ اللہ تعالیٰ اس کو نیکی اور ہدایت کے راستہ پر چلائے اور عیادت و تعزیت میں الفاظ بھی اسی قسم کے اختیار کیے جائیں مثلاً اصلحک اللّٰہ اللہ تعالیٰ آپ کے احوال کو درست فرمائیں یعنی آپکو اسلام قبول کرنے کی توفیق ہو وغیرہ ۔ (بخاری شریف (جلد ۱ص۱۸۱، جلد ۲ ص ۸۴۴) میں حدیث ہے کہ ایک یہودی لڑکا آنحضرت ا کی خدمت کیا کرتا تھا ایک روزہ وہ بیمار ہو گیا تو آنحضرت ا اس کی عیادت کیلئے تشریف لائے اور اس کے سر کے قریب جلوہ افروز ہوئے اور فرمایا اسلام قبول کر لو لڑکے نے قریب بیٹھے ہوئے اپنے باپ کی طرف دیکھا تو باپ نے کہا ابو القاسم (ا) کی بات مان لو، اس لڑکے نے کلمہ پڑھ لیا اور مسلمان ہو گیا آپ اواپس تشریف لے آئے اور آپ فرما رہے تھے۔

الحمد للہ الذی انقذہ من النار

تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے اسے دوزخ کی آگ سے بچایا

(نصب الرأیۃ لتخریج احادیث الھدایۃ : ۴ :۲۷۱)

مجوسی، بت پرستوں اور ہندؤں کی تعزیت اور عیادت کیلئے جانے کو بعض علماء نے درست فرمایا ہے اور بعض کے نزدیک درست نہیں۔ کتب متون کے ظاہر سے جائز ہونے کی ترجیح معلوم ہوتی ہے نیز علامہ ابن عابدین شامیؒ کا رجحان بھی جواز کی طرف ہے۔

فی الدر المختار:

(و) جاز (عیادتہ) بالاجماع وفی عیادۃ المجوسی قولان اھ

وفی الشامیۃ تحتہ:

(قولہ وجاز عیادتہ) ای عیادۃ مسلم ذمیا نصرانیا أو یھودیا لانہ نوع برفی حقھم و ما نھینا عن ذلک وصح ان النبی ﷺ عاد یھودیا مرض بجوارہ ھدایۃ… قلت: وظاہر المتن کالملتقی وغیرہ اختیار الاول لا رجاعہ الضمیر فی عیادتہ الی الذمی ولم یقل عیادۃ الیھودی والنصرانی، کما قال القدوری وفی النوادر جاء یھودی او مجوسی مات ابن لہ او قریب ینبغی ان یعزیہ ویقول اخلف اللہ علیک خیرا منہ واصلحک وکان معناہ اصلحک اللہ بالاسلام یعنی رزقک الاسلام ورزقک ولدا مسلما اھ(ج : ۶ ، ص : ۳۸۸)

وفی الھدایۃ:

(ولا بأس بعیادۃ الیھودی والنصرانی) لانہ نوع بر فی حقھم وما نھینا عن ذلک وقد صح ان النبی ﷺ عاد یھودیا مرض بجوارہ (ھدایۃ مع الفتح: ج :۸ ص: ۴۶۷)