+(00) 123-345-11

میرے ایک دوست نے بتایا کہ حجۃ الوداع سے واپسی پر غدیر خم کے مقام پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’من کنت مولاہ فعلی مولاہ‘‘ کیا یہ حدیث صحیح ہے اگرصحیح ہے تو کس کتاب اور کس جگہ لکھی ہے؟

شیعہ حضرات اس حدیث سے اپنا مخصوص نظریۂ امامت ثابت کرتے ہیں کیا ان کا نظریہ امامت اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے؟

’’من کنت مولاہ فعلی مولاہ‘‘ الخ (الحدیث)

یہ مکمل حدیث نہیں بلکہ حدیث کا ایک ٹکڑا ہے، اس کی تفصیل بتانے سے قبل چند باتیں تمہیداً عرض کی جاتی ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک موقع پر حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمانے لگے:

علی! تیرے اندر عیسیٰ علیہ السلام کی مثال ہے، یہود نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے اس قدر دشمنی کا اظہار کیا کہ ان کی والدہ (حضرت مریم علیہا السلام) پر تہمت لگا دی، اور عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی محبت میں اس قدر غلو کیا کہ ان کو ان کے مقام سے بہت اونچا لے گئے، اس کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ فرمانے لگے کہ میرے بارے میں بھی دو قسم کے لوگ تباہ ہوں گے، ایک وہ لوگ جو میری محبت میں غلو کریں گے اور مجھے میرے مقام سے بہت اونچا لے جائیں گے، اور دوسرے وہ لوگ جن کو میری دشمنی مجھ پر بہتان طرازی پر آمادہ کرے گی۔ (مشکوٰۃ ص ۵۸۷ باب مناقب علیؓ)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشادِ گرامی میں موجود پیشین گوئی کے مطابق کچھ حضرات نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان میں اس قدر غلو کیا کہ ان کو خدا کے ساتھ ملا دیا اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی توہین اور تنقیص کی طرف چلے گئے، جبکہ کچھ لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی مخالفت میں اس قدر آگے نکل گئے کہ انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو امامِ برحق تسلیم کرنے سے بھی انکار کر دیا، یہ دونوں طبقات افراط اور تفریط میں پڑ کر جادۂ اعتدال سے ہٹ گئے، اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت یا عداوت میں غلو کر کے طریق مستقیم پر قائم نہ رہے۔ ان دونوں ہی طبقات کی جانب سے اپنے مزعومہ خیالات کو ثابت کرنے کے لیے دلائل کا جوڑ توڑ، کلمات کا ہیر پھیر اور خلافِ مدعا دلائل سے اغماض یا انکار پیش آتا رہا مشق ستم بننے والی احادیث میں ایک حدیث یہ بھی ہے:

’’من کنت مولاہ فعلی مولاہ الخ‘‘ (جس کا میں مولیٰ، اسکا علی مولیٰ)۔

کچھ حضرات نے تو اس حدیث کو تسلیم کرنے سے ہی انکار کر دیا، حالانکہ یہ حدیث متعدد کتب حدیث میں صحیح طور پر منقول ہے اور 30 صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ہے، اس کے برعکس کچھ لوگوں نے اس حدیث سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی امامت و خلافت کے خود ساختہ نظریہ کو ثابت کرنے کی کوشش کی، اور حدیث کے سیاق و سباق اور پس منظر کو ایک طرف ڈال کر مفید مقصد الفاظ سے دلپسند معانی اخذ کرکے اس حدیث کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت بلافصل پر اپنی بہت بڑی دلیل قرار دیا۔ علماء کرام نے مسلک اعتدال کو واضح کرنے کے لیے اپنے اپنے انداز سے حدیث اور اس کے پس منظر کو واضح کر کے اس کے مفہوم کی ایسی تشریح کی جو نہ رفض کے لیے مؤید ہے اور نہ خروج کی جانب مائل ہے، مندرجہ ذیل سطروں میں بھی آپ اس حدیث کی تشریح بالاختصار لیکن مدلل طور پر پڑھیں گے، جس سے اس کے صحیح معنی سمجھنے میں آسانی پیدا ہوگی۔

اس حدیث کا پس منظر یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو رمضان ۱۰ھ میںخُمس (مالِ غنیمت کا پانچواں حصہ) وصول کرنے کے لیے یمن بھیجا، اور جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع کے موقع پر ۴ ذی الحجہ کو مکہ مکرمہ پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرمِ مکہ پہنچ کر پہلے عمرہ ادا کیا، اور پھر چار یوم تک مکہ مکرمہ میں قیام فرمایا، ان چار دنوں میں حضرت علی رضی اللہ عنہ یمن سے واپس مکہ مکرمہ پہنچے اور خمس حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا، اس سفر کے دوران بعض رفقائے سفر کے دل میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے کچھ بدگمانی اور کدورت پیدا ہو گئی، حضور صلی اللہ علیہ وسلم جو حجۃ الوداع کے اس عظیم اور اہم ترین سفر میں قدم بہ قدم امت کو گمراہی اور افتراق سے بچانے کے لیے نصائح اور خطبات ارشاد فرما رہے تھے، یہ کیسے گوارا کر سکتے تھے کہ سیدنا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں اجتماعی طور پر لوگوں کے دلوں میں بدگمانی پیدا ہو جائے، جبکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا شمار کبار صحابہ اور ’’السابقون الاولون‘‘ میں ہے، اور جبکہ انہوں نے آگے چل کر اپنے وقت میں امت کی قیادت و سیادت کے فرائض بھی انجام دینے ہیں، اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’غدیر خم‘‘ کے مقام پر خطبہ ارشاد فرمایا، جس میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ محبت و عقیدت کا معاملہ رکھنے کی ترغیب دی اور بدگمانی سے بچنے کی تلقین کی۔ (دیکھئے البدایۃ والنھایۃ ج : ۵، ص : ۱۰۶)

چنانچہ حضرت براء بن عازب اور حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ:

آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب ’’غدیر خم‘‘ (کے مقام) پر تشریف لائے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمانے لگے، کیا تم نہیں جانتے کہ میں مؤمنین کی جانوں سے زیادہ انکا محبوب (اولیٰ) ہوں؟ حاضرین نے عرض کیا، کیوں نہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم نہیں جانتے کہ میں ہر مومن کی جان سے زیادہ اس کو محبوب (اولیٰ) ہوں؟ حاضرین نے عرض کیا کیوں نہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے اللہ! جس کا میں محبوب (مولیٰ) ہوں تو علی بھی اس کے محبوب (مولیٰ) ہیں، اے اللہ جو (علی رضی اللہ عنہ) سے محبت (موالات) کرے تو اس سے محبت (موالات) کر، اور جو (علی رضی اللہ عنہ) سے نفرت (معادات) کرے تو اس سے نفرت (معادات) کر۔ (مشکوٰۃ مع المرقاۃ ۱۰/۴۷۵)

-1مذکورہ حدیث اور اسکے پس منظر کی تفصیل سے یہ بات بخوبی معلوم ہو جاتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد حضرت علی رضی اللہ عنہ کی امامت و خلافت کو بیان کرنا نہیں بلکہ ان شکوک و شبہات کا ازالہ کرنا مقصود ہے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے بعض معاملات میں بعض رفقائے سفر کے ذہنوں میں پیدا ہوئے تھے، اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی برأت کے اظہار کے بعد ان سے محبت کا حکم ہے، اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد حضرت علی رضی اللہ عنہ کی امامت اور خلافت کو بیان کرنا ہوتا تو صاف طور پر واضح الفاظ میں اس بات کا اظہار فرما دیتے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ میرے بعد خلیفہ ہوں گے، ایسے الفاظ اختیار کرنے کی کیا ضرورت تھی جن سے معاملہ مبہم اور مخفی رہے۔

-2لغت کے مشہور امام ابن اثیر رحمہ اللہ لفظ ’’مولی‘‘ کے تحت لکھتے ہیں اور یہ لفظ ’’مولی‘‘ ایک ایسا لفظ ہے جو متعدد معانی کے لیے استعمال ہوتا ہے پس مولیٰ کے معنی پروردگار، مالک، سردار، محسن، آزاد کرنے والا، مددگار، محبت کرنے والا، فرمانبردار، پڑوسی، چچا زاد بھائی، عہد و پیماں کرنے والا، عقد کرنے والا، داماد، غلام، آزاد کردہ غلام اور احسان مند کے آتے ہیں اور ہر حدیث کے مقتضیٰ کے مطابق معنی مراد لیا جاتا ہے۔ (النھایۃ ۵/۲۲۸)

-3مذکورہ بالا حدیث کے آخر میں ’’ولایت‘‘ کے ساتھ ’’عداوت‘‘ کے تقابل سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ’’مولیٰ‘‘ اور ’’اولیٰ‘‘ وغیرہ الفاظ سے محبت کا معنی ہی مراد ہے جو عداوت کی ضد ہے، اگر محبت کا معنی مراد نہ ہوتا تو ولایت کے تقابل میں عداوت کا لفظ ذکر نہ کیا جاتا۔

-4نیز ’’مولیٰ‘‘ سے امامت و خلافت کا معنی مراد لینے کی صورت میں لازم آئے گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ ہی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی امام اور خلیفہ ہوں، کیونکہ حدیث میں اس بات کا کوئی تذکرہ نہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مولیٰ ہوں گے، بلکہ حدیث میں صرف اس قدر ہے کہ جس کا میں مولیٰ اس کا علی (رضی اللہ عنہ) مولیٰ، اگر یہاں محبت والا معنی مراد نہیں لیا جاتا تو یہ حدیث حضرت علی رضی اللہ عنہ کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلیفہ بلا فصل ہونے پر نہیں، بلکہ امامت و خلافت کے سلسلے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی مساوات اور اشتراک پر دال ہوگی جو کسی کو بھی تسلیم نہیں، لہٰذا اس حدیث سے وہی معنی متعین ہیں جو اوپر مذکور ہوئے۔

-5ایک دوسری حدیث میں یہی لفظ ’’مولیٰ‘‘ حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کیلئے بھی استعمال ہوا ہے، چنانچہ ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا:’’ انت مولای ومنی‘‘ (آپ میرے مولا ہیں اور مجھ سے ہیں) (طبقات ابن سعد ۳/۴۴) اور دوسری روایت میں ہے: ’’انت مولای واحب القوم الی‘‘ (آپ میرے مولا ہیں او رمجھے لوگوں میں سب سے زیادہ محبوب ہیں (مصنف عبدالرزاق ۱۱/۲۲۷) ایک اور روایت میں ہے : ’’انت اخونا و مولانا‘‘ (آپ ہمارے بھائی اور ہمارے مولا ہیں) (طبقات ابن سعد ۳/۴۳)

اگر مولیٰ سے امام اور خلیفہ کے معنی ہی متعین ہوں تو پھر چاہیے کہ حضرت زید رضی اللہ عنہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امام اور خلیفہ بلا فصل ہوں لیکن جب یہاں پر یہ معنی مراد نہیں تو حدیث من کنت مولاہ الخ میں بھی اس معنی کی تخصیص کی کوئی وجہ نہیں۔

-6مذکورہ حدیث کے نظریہ امامت و خلافت سے غیر متعلق ہونے کی ایک بہت بڑی شہادت یہ بھی ہے کہ سیدنا حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے حضرت حسن مثنیٰ رحمہ اللہ سے کہا گیا کہ کیا ’’من کنت مولاہ‘‘ کی حدیث میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی امامت (خلافت) کی صراحت نہیں؟ تو انہوں نے جواب میں فرمایا:

خبردار! اللہ کی قسم، اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس سے امارت یا حکومت کا ارادہ فرماتے تو یہ بات صاف صاف بیان فرما دیتے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر مسلمانوں کا خیر خواہ کوئی نہیں ہو سکتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم صاف فرما دیتے کہ اے لوگو! میرے بعد تمہارے حاکم اور تمہارے نگران علی رضی اللہ عنہ ہوں گے، ان کی بات سنو، اور اطاعت کرو، مگر ایسی کوئی بات نہیں، اللہ کی قسم اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ اللہ اور اس کے رسول کے حکم کو ترک فرما دیتے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ سب لوگوں سے بڑھ کر خطا کار ہوتے۔ (دیکھئے الصواعق المحرقۃ ص : ۴۸، تحفۃ اثنا عشریۃ ص : ۲۰۹، روح المعانی ۶/۱۹۵، التاریخ الکبیر لابن عساکر ۴/۱۶۶)

ملاحظہ فرمائیں کہ خانوادہ نبوت نے کس وضاحت کے ساتھ ہر قسم کے شبہ کا جواب دے دیا ہے، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادِ مبارک کی تشریح کرتے ہوئے ہر طرح کے باطل احتمالات کی بیخ کنی کر کے مرادِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو متعین فرما دیا ہے، اس کے بعد کسی کو بھی مذکورہ بالا حدیث سے غلط مطلب اخذ کرنے کی لاحاصل سعی نہیں کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی صحیح فہم نصیب فرمائے۔ آمین