+(00) 123-345-11

سوال یہ ہے کہ قرآن و حدیث میں اچھائی اور برائی کا مرکز دل کو قرار دیا ہے یعنی اگر دل کی اصلاح ہو جائے تو تمام بدن اور اعمال کی اصلاح ہو جائے گی اور اگر دل میں بگاڑ پیدا ہو جائے تو تمام بدن اور اعمال میں بگاڑ پیدا ہو جائے گا اور اسی طرح علم کا مرکز سینے کو قرار دیا ہے نہ کہ دماغ کو لیکن سائنسی اور تجرباتی حقائق اس کے خلاف ہیں سائنسی حقائق انسان کے خیالات اور اعمال کا مرکز دماغ کو قرار دیتے ہیں نہ کہ دل کو ۔

میں اپنے سوال کو واضح کرنے کی خاطر کچھ آیات اور احادیث کے معانی لکھ رہا ہوں۔

آیات:

(۱) اور اپنے رب کو یاد کیا کر اپنے دل میں اور ذرا دھیمی آواز سے بھی اس حالت میں کہ عاجزی بھی ہو اور اللہ تعالیٰ کا خوف بھی ہو(ہمیشہ) صبح کو بھی اور شام کو بھی اور غافلین میں سے نہ ہو۔ (الاعراف)

بند لگا دیا ہے اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر اور ان کی آنکھوں پر پردہ اور ان کے لیے سزا بڑی ہے (البقرۃ)

الحدیث: (۱)عبداللہ بن عباسؓ نے نبی کریم ا کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ جس شخص کے قلب میں قرآن شریف کا کوئی حصہ محفوظ نہیں وہ بمنزل ویران گھر کے ہے(رواہ الترمذی)

(۲) عبداللہ بن عمروؓ نے حضور اقدس ا کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ جس شخص نے کلام اللہ پڑھا اس نے علوم نبوت کو اپنی پسلیوں کے درمیان لے لیا گو اس کی طرف وحی نہیں بھیجی جاتی۔ حامل قرآن کے لیے مناسب نہیں کہ غصہ والوں سے غصہ کرے یا جاہلوں کے ساتھ جہالت کر ے حالانکہ اس کے پیٹ میں اللہ کا کلام ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ جس طرح سورہ اعراف میں دل کا ذکر ہے کہ اپنے رب کی یاد کیا کر اپنے دل میں کیا یہ ممکن ہے؟ حالانکہ انسان جب کوئی چیز یاد کرتا ہے تو دماغ میں یا دماغ کی مدد سے یاد کرتا ہے نہ کہ دل میں کیونکہ انسان کا علمی اور معلوماتی مرکز دماغ ہی ہوتا ہے ۔

اب میرے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر قرآن اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے تو اس نے اتنی بڑی غلطی (نعوذبااللہ) کیوں کی؟حالانکہ ضرورت اس بات کی تھی کہ وہ لوگوں کی غلط فہمی کو دور کر دیتے۔

ایک اور سوال ذہن میں ابھر رہا ہے کہ انسان کا بنانے والا اللہ تعالیٰ ہے وہی انسان کے جسم کے متعلق بہتر جانتا ہے لہٰذا اللہ تعالیٰ یہ بات نہیں کر سکتا لہٰذا یہ کتاب (نعوذ باللہ ) آسمانی نہیں یہ نبی کریم ا نے خود بنائی ہے۔

لہٰذا آپ سے گذارش ہے کہ مجھے اس پیچیدگی سے نکالنے کی بلا تعصب کوشش کریں اگر میری باتیں صحیح ہیں تو آپ بھی جواب دیجئے اور اگر غلط ہیں تو خدا کے لیے جلد از جلد میرے شکوک و شبہات کو دور کرنے میں میری مدد کریں اور مجھے دوزخ سے بچائیے۔

چونکہ زیر بحث مسئلہ میں اکثر پڑھے لکھے لوگ شکوک و شبہات اور غلط فہمیوں کا شکار ہیں جس سے دین و ایمان کے ضیاع کا خطرہ ہے اس لیے مناسب یہ ہے کہ اس پر کسی قدر تفصیل سے گفتگو کی جائے تاکہ اس مسئلہ کا کوئی پہلو تشنہ نہ رہ جائے اور مسئلہ ہر اعتبار سے الم نشرح ہو جائے۔

مقصودی مباحث سے قبل چند بنیادی باتیں معلوم ہونا ضروری ہیں تاکہ راہ حق کے متلاشی تقلیدی تاریکیوں اور جانبدارانہ آراء سے ہٹ کر ایک منزل کو متعین کرنے میں کامیابی سے ہمکنار ہوں اور علوم و فنون کی قدر و منزلت اور باہمی تفاوت کے تعین کے لیے کسی شخص کی ذات یا اس کی مخصوص آراء سے نکل کر صداقت اور واقعیت کے واضح معیار کے تحت دلائل و براہین کا جائزہ لیتے ہوئے سنجیدگی سے غور و فکر کیا جا سکے۔

وہ علوم و فنون جن کے بنیادی نقطہ نظر میں دلائل نقلیہ اور اخبارِ صادقہ سے ہٹ کر اپنے تجربات اور اپنی سوچ و فہم اور دور رسی سے اخذ نتائج کے بعد چند بنیادی اصول وضع کر لیے گئے اور مزید امعان فکر سے مسائل کے ایک مرتب مجموعہ کی شکل میں اس پر علم یا فن کا اطلاق کیا جانے لگا اور رفتہ رفتہ وہ مستقل علم و فن کی حیثیت سے شہرت اختیارکر گئے ان کی چند اقسام ہیں جن میں سے زیر بحث موضوع کے متعلق چند ایک مفید علوم کو ذکر کیا جاتا ہے۔

ریاضیات: اس علم کا تعلق حساب و ہندسہ یا ہیئت وفلکیات سے ہے دینیات سے بہر کیف اس کو نفیاً یا اثباتا کوئی سروکار نہیں ان کے متعلق یہ کہنا چاہیے کہ یہ سراسر علوم برھانیہ سے لگاؤ رکھتے ہیں اور جو کوئی بھی انہیں اچھی طرح جانتا ہے ان کی قدر و قیمت اور افادیت کا انکار نہیں کر سکتا۔

منطق: اس فن پر غور کیجئے تو اس کے معروف قواعد دینی تقاضوں سے متصادم نہیں معلوم ہوتے اس کا علم دین سے براہ ٔ راست نفیاً یا اثباتاً کوئی لگاؤ نہیںکیونکہ اس میں تو صرف یہ بحث کی جاتی ہے کہ دلائل کیا ہیں؟ ان کی جانچ پرکھ کے کیا پیمانے ہیں؟ برہان کسے کہتے ہیں اس کے شرائط اور مقدمات کی نوعیت کیا ہے؟ تعریف کس سے تعبیر ہے؟ اور کیونکر اسے ترتیب دیا جاتا ہے؟ اس کے علاوہ اس میں یہ بتایا جاتا ہے کہ علم کی دو قسمیں ہیں تصور یا تصدیق تصور کو تعریف وحدّ کے ذریعے معلوم کیا جاتا ہے اور تصدیق کی پہچان برہان و دلیل سے ہوپاتی ہے ظاہر ہے کہ ان میں کوئی ایسی چیز نہیں جس کو دین کے منافی قرار دیا جائے۔

طبیعات، سائنس: اس علم میں اجسام عالم سے بحث کی جاتی ہے جیسے کہ آسمان ، نجوم و کواکب،پانی ، ہوا، مٹی، آگ، حیوانات، نباتات اور معادن وغیرہ اس میں ان کے تغیرات، استحالات اور امتزاجات کی کیفتیں بیان کی جاتی ہیں یہ بحث ایسی ہی ہے جیسے ایک معالج یا طبیب انسان اور اس کے اعضائے رئیسہ و خادمہ کو نظر و فکر کا ہدف قرار دیتا ہے پھر جس طرح علم طب میں اور دین میں کوئی منافات نہیںاسی طرح طبعیات کے مبنی برحقیقت مسائل اور دین میں بھی کوئی تصادم نہیں۔

الٰہیات: اس فن میں حکماء نے بہت ٹھوکریں کھائیں ہیں اس سلسلے میں ان کی کتابوں کا بنظر انصاف مطالعہ کرنے سے واضح ہو جاتا ہے کہ ان حضرات نے جب دلیل و برہان کی محکمی اور استواری بیان کرنا چاہی تو اس کیلئے تو ایسی کڑی شرطیں ٹھہرائیں کہ جن سے یہ قطعیت و یقین کے درجہ تک پہنچ جائیں۔ جب الٰہیات پر گفتگو کا موقع آیا تو ان شرائط کا حق ادا نہ کیا بلکہ انتہا درجے کے تساہل سے کام لیا۔ جو کوئی بھی ان کے قابل وثوق علوم (ریاضی و منطق وغیرہ) کا مطالعہ کر تا ہے وہ ان کے دقائق سے متاثر ہو کر اور یہ دیکھ کر کہ ان میں جن دلائل کو پیش کیا گیا ہے وہ کس درجہ واضح اور محکم ہیں متعجب ہوتا ہے معاملہ اگر صرف تحسین و استعجاب تک محدود رہتا تو اس میں کوئی مضائقہ نہ تھا اصل مصیبت یہ ہے کہ یہ اس غلط فہمی کا شکار ہو جاتا ہے کہ ان کے تمام علوم و افکار دلائل کی محکمی و وضوح کے اعتبار سے ایسے ہی پختہ اور ناقابل تردید ہیں اور اس کا قدرتی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جب یہ ان کے اقوال غیر سدیدہ کو دوسروں سے سنتا ہے تو اس پر سر دُھنتا ہے بلکہ بسا اوقات خود بھی ازراہ تقلید ان کے پروپیگنڈہ میں ان کا ہم نوا ہوجاتا ہے مگر اس کی طرف توجہ نہیں جاتی کہ جہاں ریاضیات میں ان کے استدلال کی عمارت دلیل و برہان کی استواریوں پر مبنی ہے وہاں الٰہیات میں یہ محض تخمین کے بل بوتے پر چلتے ہیں مگر اس کا فرق عوام کو ہر گز نہیں ہو سکتا اس کو تو کچھ وہی لوگ جانتے ہیں جنہوں نے ان علوم میں گہرے غور و فکر سے کام لیا ہو اور ان کی جزئیات و فروع کا تجربہ کیا ہو۔ (ماخذہ المنقذ من الضلال للغزالی / ص:۲۱ وما بعدہ)

مشاہداتی اور تجرباتی نوعیت کی سائنسی معلومات جن کی پشت پہ درست مشاہدہ اور صحیح تجربہ کا سہارا ہو ان سے حاصل شدہ نظریات و افکار کا دین و شریعت سے کوئی تصادم نہیں اور نہ دین ان علوم کی تحصیل میں رکاوٹ ہے چنانچہ مذہبی تعلیمات اور مذہبی کتب میں کہیں بھی مفید علوم اور قابل قدر فنون سے لا تعلق رہنے اور دوررس سوچ و فکر کے ذریعے کائنات کے طبعی اور تکوینی امور سے جدید اکتشافات کے حصول کو نظر انداز کرنے کا حکم نہیں دیا گیا بلکہ اسلام ہر نافع اور مفید امر کی اجازت دیتا ہے اور مضر اور غیر مفید اور بے کار شئی سے روکتا ہے اسی لیے یہ دین فطرت ہے لہٰذا یہ سائنس اور طبیعات کے مبنی برحقیقت مسائل اور جدید اکتشافات سے ترقی کی راہ میں ہر گز رکاوٹ حائل نہیں کرتا۔

لیکن مشاہدات اور تجربات سے ہٹ کر سائنس کے بعض وہ مسائل ہیں جو کسی مضبوط بنیاد پر استوار نہیں کیے گئے بلکہ وہ محض تخیلات اور مفروضات پر مبنی نظریات ہیں محض ایک ذہنی اختراع اور وھمی مفروضہ کو نظریہ کا جامہ پہنا کر پیش کر دیا گیا اور شاگردان رشید نے بڑوں کی قابلیت اور تسلیم شدہ بزرگی کے آگے ’’سر تسلیم خم‘‘ کہتے ہوئے ان تخیلات و مفروضات کو من وعن تسلیم کر لیا اور صدھا برس تک ان مفروضات اور قیاس آرائیوں کو سائنس میں مسلمات کا درجہ دیا گیانہ ان کی صداقت سے بحث کی گئی نہ ان کے دلائل کو نقل و عقل کے اعلیٰ معیاری اصولوں پر پرکھنے کی کوشش کی گئی۔ مگر بعد میں مفکرین نے ان نظریات کی بلند و بالا عظیم الشان عمارت میں شگافیں ڈال دیں اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ سائنس کے ان نظریات اور مفروضات کی عمارت زمین بوس ہو گئی اور کتابوں میں ان کا تذکرہ تردید کے لیے کیا جانے لگا۔

مثال کے طور پر گیلیلیو کے زمانے تک سائنس کے اس اصول کو قطعی تصور کیا جاتا تھا کہ بھاری چیزیں ہلکی چیزوں کی نسبت تیزی سے نیچے گرتی ہیں لوگ اس نظریے کی تصدیق کرنے کیلئے تجربہ کو بھی گناہ سمجھتے تھے مگر گیلیلیو نے آکر اس نظریہ کی تردید کی اور ثابت کیا کہ ہلکی اور وزنی چیزیں ایک ساتھ گرتی ہیں۔ (دیکھئے کتاب، انسان کے کارنامے)

متقدمین سائنس دانوں کے اہم نظریات میں سے ایک نظریہ قانونِ علیت ہے جس کے تحت انہوں نے تصوراتی دنیا میں خدا کے وجود کو ایک عضو معطل کے درجہ میں بلند و بالا مقام پر بٹھا دیا، مگر مسلمان مفکرین میں امام غزالی ؒ نے اور بعد میں اسکاٹ لینڈ کے ذہین اور طباع فلسفی ڈیوڈ ہیوم نے اس نظریے کے خلاف آواز اٹھائی اورمسلمہ قانونِ علیت پر ضرب کاری لگاتے ہوئے اس کی تاروپود بکھیر کر رکھ دی(دیکھئے سر گزشت غزالی /ص:۶۲، تاریخ فلسفہ، مصنفہ الفرڈ ویبر، اردو ترجمہ از ڈاکٹر عبدالحکیم / ص: ۳۵۹)

فیثا غورث اور اس کے نظریہ کے حامی ہمیشہ آفتاب ساکن ہے ساکن ہے کہ رٹ لگاتے رہے اور صدیوں یورپ کی معقولی بھی اسی سبق کو دھراتے رہے بالآخر یہ نظریہ غلط ثابت ہوا اور مانا گیا کہ سورج بھی اپنے طور پر گھومتا ہے (دیکھئے انسان کے کارنامے)

عصر جدید کے مادہ پرستانہ سائنسی نظریات میں سے سب سے اہم نظریہ ارتقاء ہے جو علمی حقیقت سے زیادہ محض ایک مفروضہ ہے اور اس کو علمی حقیقت ثابت کرنے کی تمام کوششیں اب تک ناکام ہو چکی ہیں اور برابر ہوتی جا رہی ہیں یہ دور جدید کا سب سے اہم اور معرکۃ الآراء مسئلہ ہے جس پر علمی اعتبار سے اتنا کام ہو چکا ہے کہ شاید ہی کسی دوسرے مسئلہ پر ہوا ہو۔ اس مسئلہ کو بنیاد بنا کر کھیتوں اور باغیچوں میں تجربات کئے جا رہے ہیں اور لیبارٹریوں میں مسلسل جانچ پڑتال کی جا رہی ہے چمپانزی بندروں کو برابر ٹریننگ دی جا رہی ہے تاکہ یہ ثابت کیا جا سکے کہ سدہائے جانے پر وہ بھی انسان بن سکتے ہیں؟ اسی طرح دنیا بھر کے مختلف حیاتاتی نمونوں کو اکٹھا کیا جا رہا ہے اور اس مقصد کے لیے کرّہ ارض کا گوشہ گوشہ چھانا جا رہا ہے سمندروں کو کھنگالا جا رہا ہے اور زمین کے اندر گڑے ہوئے اُحفوری آثار و باقیات تک کو کھود کر نکالا جا رہا ہے لیکن اس تمام کدو کاوش کے باوجود کوئی ایسی حقیقت دریافت نہیں ہو سکی جس کو قانون فطرت کا نام دیا جا سکے، اور اس سلسلے میں اب تک جتنے دعوئے کیے گئے ہیں وہ بلا دلیل اور بلا ثبوت ہیں جن کی حیثیت قیاسات و مفروضات سے زیادہ نہیں اسی بناء پر اب خود دنیائے سائنس میں یہ خیال زور پکڑتا جا رہا ہے کہ نظریہ ارتقاء محض ایک قیاس ومفروضہ ہے جو سائنسی نقطۂ نظر سے ثابت نہیں۔

چنانچہ حال ہی میں آکسفورڈ سے ایک قابل قدر کتاب ’’قاموس جہالت‘‘

(The Encyclopedia Ignorance) کے نام سے شائع ہوئی ہے جس میں ساٹھ مستند ماہرین سائنس کے مختلف موضوعات پر فکر انگیز مقالات موجود ہیں ان میں سے ایک مضمون کا عنوان ہی ’’نظریہ ارتقاء کے مغالطے‘‘ (The Fallacices of Enolutaion Theory) اور اس مضمون کا حاصل یہ ہے کہ انسان نام نہاد ارتقائی قوانین کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتا، اور ان کو حقائق کا نام دینا ایک مغالطہ ہے۔

(دیکھئے کتاب تخلیق آدم اور نظریہ ارتقائ/ ص:۳۹)

اس سے سائنس دانوں کے ان تمام تجربات اور بلند وبانگ دعاوی کی حقیقت بھی واضح ہو گئی جو آج تک نظریہ ارتقاء کو سائنسی اور تجرباتی نوعیت کا مسئلہ ثابت کرنے کے لیے پیش کئے جاتے رہے وہ یہ نہ معلوم کر سکے کہ وہ اس نظریہ کے تسلیم کرنے میں تحقیق و تجربہ سے زیادہ تقلید و جمود کی راہ پر گامزن ہیں۔

اب زیر نظر مسئلہ کے متعلق کچھ عرض کیا جاتا ہے اولاً طبی اور سائنسی تحقیقات اور فلسفیانہ اندازِ فکر سے اس پر گفتگو کی جاتی ہے اس کے بعد انشاء اللہ فلسفۂ اسلامی کے نقطۂ نظر سے اس کی وضاحت کی جائے گی۔

علم وادراک احساس وشعور کے حوالے سے متقدمین سائنس دانوں کے کلام میں اس قدر اضطراب اور اختلاف نظریات نہیں جس قدر دورِ جدید کے سائنس دانوں کا کلام پراگندہ اور منتشر ہے اور طبی اصطلاحات بھی تقریباً مسئلہ شعور و احساس میں متوافق اور یکجہتی کی جانب مائل نظر آتی ہیں۔

چنانچہ علم طب میں احساس و شعور کے مراکز کی تعیین کچھ یوں ہے کہ دماغ کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے بطن اول کے مقدم میں حسّ مشترک کا مقام ہے اور اس کے ساتھ ہی بطن اول کے مؤخر حصہ میں خیال کا محل ہے اور بطن مؤخر کے ابتدائی حصہ میں قوت وہمیہ جاگزین ہے اور بطن مؤخر کے پچھلے حصہ میں قوہ حافظہ محصور ہے اور بطن وسط قوت متخیلہ کا محل ہے (ان قوی کے ادراکات اور ان میں اختلافات کی تفصیل کیلئے ملاحظہ ہو نفیسی۔ نفیس بن عوض / ص:۷۱ وما بعدہ، اور قانونچہ فی الطلب / ص:۱۹ وما بعدہ اور اطلس تشریح الانسان)

اطباء تمام حواس کا مبدأ دماغ کو قرار دیتے ہیں اور دماغ سے آگے کسی اور محل و مقام کی طرف ان کا رجوع تسلیم نہیں کرتے اور اس بارے میں چند تجربات اور دلائل سے سہارا لیتے ہیں (جن کی تفصیل عنقریب معلوم ہو گی)۔

علم کا مرکز شیخ ارسطو کے نزدیک:

لیکن شیخ ارسطو اور ان کے متبعین حواس کا مبدأ دماغ سے آگے دل کو قرار دیتے ہیں اور اپنے دلائل اور تجربات سے اس مسئلہ کو مبرھن کرتے ہوئے اطباء سے جدا نظریہ رکھتے ہیں بلکہ دل کو مبدأ حواس قرار دینے میں تو ارسطو تجربات سے ایک قدم آگے معاینہ تک کا دعویٰ کرتے ہیں۔

(دیکھئے ارسطو کی کتاب، اجزاء الحیوان/ ص:۷۰-۱۰۰، ۱۳۲)

بو علی سینا:

فلسفہ ارسطو سے دنیا کو روشناس کرانے والے ان کے علم کے جانشین شیخ بو علی سینا اپنی کتاب ’’الشفائ‘‘ میں بڑے شدو مد سے اطباء کی رائے اور ارسطو کے فلسفے کا اختلاف ذکر کرتے ہوئے یوں محاکمہ کرتے ہیں کہ ظاہری طور پر اطباء کی رائے درست معلوم ہوتی ہے لیکن نظرِ دقیق اور تحقیق عمیق کے بعد یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ارسطو کا مؤقف ہی صحیح ہے کہ تمام حواس کا مبدأ دماغ سے بھی آگے دل ہے۔

(دیکھئے ، الشفاء (طبعیات) ج:۳، ص:۱۳، ۴۰، ۴۶، ۲۵۴)

اور فلسفہ ارسطو کے دوسرے ترجمان ابو نصر فارابی تو ایک ہی موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں کہ تمام قویٰ اور حواس کا مبدأ و منبع قلب ہے اور دماغ آلہ احساس و ادارک ہے ۔

ابو نصر فارابی:

چنانچہ ابو نصر فارابی کی کتاب’’آراء اہل المدنیۃ الفاضلۃ‘‘ کے اقتباس کا ترجمہ ملاحظہ ہو :

قوۃ حاسہ میں ایک رئیس ہے اور باقی اس کے خدام اور توابع کی حیثیت سے کام کرتے ہیں اور یہ خدام اور توابع مشہور حواس خمسہ ہیں جو آنکھوں کانوں اور باقی جگہوں میں پھیلے ہوئے ہیں ان حواس میں سے ہر ایک ایک مخصوص حس کا ادراک کرتا ہے اور قوت رئیسیہ وہ ہے جہاں یہ پانچوں جا کر مجتمع ہو جاتے ہیںاور اس کا مقام قلب ہے ان خدام توابع اور رئیس کی مثال ایسے ہے جیسے ایک صدر مملکت ملک کے مختلف مقامات پر اپنے مخصوص آدمیوں کو بھیجتا ہے تاکہ ہر جگہ کے حالات کا صحیح علم اس تک پہنچائیں اس طرح یہ حواس دل کے ہاں مختلف اشیاء کے علوم و ادراکات بہم پہنچاتے ہیں اور تابع اور علوم کی حیثیت سے اس کے لیے کام کرتے ہیں۔ (ص: ۴۵، ۴۶)

اسی کتاب میں ایک اور مقام پر لکھتے ہیں:

قلب عضو رئیس ہے، جس کے اوپر بدن کے کسی دوسرے عضو کی حکومت نہیں پھر دوسرے نمبر پر رئاست و حکومت دماغ کا عمل ہے اس میں بھی کسی قدر اقامت کا پہلو پایا جاتا ہے لیکن اس کی حکومت اور رئاست اولی نہیں بلکہ ثانوی درجہ کی رئاست ہے کیونکہ دماغ ہی کے سہارے باقی اعضاء پر حکومت کرتا ہے کیونکہ دماغ دل کا خادم ہے اس لیے جو امر دل کا مقصود طبعی ہو اس میں باقی اعضاء دماغ کی خدمت میں لگے رہتے ہیں۔ (ص: ۴۸،۴۹)

اطباء کے دلائل:

لیکن اطباء درج ذیل تجربات کی روشنی میں حواس کا مبدأ و محل دماغ کو قرار دیتے ہیں۔

-1 اگر دماغ پر کوئی چوٹ لگ جائے یا دماغ کو کوئی آفت پہنچ جائے تو تمام حواس معطل ہو کر رہ جاتے ہیں اور اپنا کام کرنا چھوڑ جاتے ہیں اس سے معلوم ہوا کہ تمام حواس کا محل دماغ ہے نہ کہ دل۔

-2 جب دماغی اعصاب کو نیچے سے مضبوطی سے باندھ دیا جائے یا کاٹ دیا جائے تو اس بندھے ہوئے یا کٹے ہوئے عضو کی حس و حرکت ختم ہو جاتی ہے۔

-3 جب انسان کوئی نشہ آور چیز استعمال کرے تو اس کے اثرات دماغ تک پہنچ جانے کی وجہ سے بے ہوشی طاری ہو جاتی ہے۔

-4 حواس (جو آلاتِ ادراک ہیں) کا نفوذ دماغ کی طرف ہے قلب کی طرف نہیں نیز اعصاب جو حرکات اختیاریہ کیلئے ذریعہ بنتے ہیں وہ بھی دماغ کی طرف پہنچتے ہیں قلب کی طرف نہیں پہنچتے۔

مندرجہ بالا تجربات سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ دماغ ہی حواس کا مرکزی مقام ہے اوریہیں سے حواس کی ابتداء ہوتی ہے جو آگے جا کر جسم کے مختلف اعضاء میں پھیل جاتے ہیں۔

(دیکھئے نفیسی/ ص:۷۱، تہافت الفلاسفہ للغزالیؒ/ ص:۳۵۶، تفسیر کبیر للرازیؒ/ ج:۲۳ ص:۱۶۸)

شیخ ارسطو کی طرف سے

مگر دل کو مرکز و مبدأ احساسات قرار دینے ولے حضرات کی طر ف سے ان تجربات کا یہ جواب دیا گیا کہ ان تمام تر تجربات سے صرف اس قدر معلوم ہوتا ہے کہ دماغ کے ساتھ بھی حواس کا تعلق ہے لیکن دل کے مبدأ و منبع احساس ہونے کی نفی پھر بھی نہیں ہوتی کیونکہ دماغ دل کے لیے آلہ اور وسیلہ کی حیثیت سے کام کرتا ہے اور مؤثر(قلب) کی تاثیر کے مقصود تک پہنچنے کیلئے آلہ (دماغ) کی سلامتی اور آفات سے حفاظت شرط ہے اگر آلہ (دماغ) میں کوئی خامی اور نقص پیدا ہو جائے تو قلب ا س کے بغیرادراک و احساس کے منازل طے نہیں کر سکتا اور نہ قویٰ حسیہ اپنے احساسات کو اس تک پہنچا سکتی ہیں تو دماغ قلب کیلئے آلۂ قریبہ ہے اور حواس قلب کیلئے آلہ بعیدہ ہیں تو جیسے جسم کے باقی اعضاء کو مبداء احساسات قرار دینا درست نہیں اسی طرح احساسات کی دماغ تک محدودیت کا نظریہ بھی صحیح نہیں بلکہ تمام حواس کا مبداء قلب ہے۔

(دیکھئے۔ تفسیر کبیر للرازی / ج۲۳۔ ص:۱۶۸، شرح المواقف/ ج۲، ص:۶۳، ہدیہ سعیدیہ/ ص:۲۱۰)

شیخ ارسطو کے دلائل:

ان حضرات نے اپنے مؤقف پر دلائل قائم کرتے ہوئے کہا۔

-1 یہ بات تجربہ سے ثابت ہے کہ جب کوئی آدمی کسی مسئلہ میں بہت زیادہ غور فکر کرتا ہے اور اس کو حل کرنے میں بہت زیادہ سوچ و بچار سے کام لیتا ہے تو بسا اوقات اسے دل کے اندر اکتاہٹ سی محسوس ہونے لگتی ہے اور اس معاملہ میں زیادہ غور وفکر کرنے کیلئے دل کو مشقت میں ڈالنا پڑتا ہے اگر دل غو و فکر ، تحقیق و جستجو پر راضی ہو تو انسان پورے نشاط سے مسئلہ کی تحقیق کر سکتا ہے اور دل میں ملال اور اکتاہٹ ہونے کی صورت میں تحقیق کماحقہ انجام نہیں پاتی۔

-2 نیز یہ امر بھی تجربہ شدہ ہے کہ بعض آدمی فطری طور پر یا مشکل اور کھٹن مراحل سے گذرنے کی وجہ سے سخت دل ہوتے ہیں اور ان کے برعکس بعض لوگ نہایت نرم دل اور حساس طبع واقع ہوئے ہیں اور ان دونوں طرح کے لوگوں کے افکارو تصورات اور خیالات و جذبات میں نمایا ں فرق نظر آئے گا یہ اختلاف اسی وجہ سے ہے کہ ایک کے دل میں سختی اور شجاعت کا وصف زیادہ ہے لہٰذا اس کے دل نے مناسب سوچ دے کر جوارح سے کام سرزد کرائے جبکہ دوسرے کے دل میں نرمی ہے اور شجاعت کا مادہ قلیل ہے اس لیے اس کا دل مناسب سوچ پیدا کر کے جوارح سے افعال سرزد کرواتا ہے اس سے معلوم ہوا کہ فکر، سوچ اور تدبیر نیز افعال جوارح کا مرکز و منبع قلب ہے باقی تمام اعضاء اسی کے تابع ہو کر مصروف کار ہیں۔

-3 انسان کا دل عام حالات میں جبکہ کسی قسم کا خوف و ہراس نہ ہو اعتدال کے ساتھ اپنی مقررہ حرکات و سکنات کی انجام دہی میں مصروف رہتا ہے لیکن اچانک جب کوئی خطرناک معاملہ یا خوف و ہراس کی صورت پیش آجائے تو دل کی دھڑکنوں کے اعتدال میں نمایاں تبدیلی محسوس ہونے لگتی ہے اور دل میں خوف و ہراس سے نکلنے ا ور نفس کو بچانے کا داعیہ پیدا ہوتا ہے جس کیلئے تمام اعضا ء دل کی ماتحتی میں کام کرنے لگ جاتے ہیں تو دل کی ضربات میں اس واضح تبدیلی سے معلوم ہو ا کہ خارجی امور سے دل متاثر ہو کر جلد ہی مستقبل کیلئے فیصلہ کرتا ہے اور جوارح اس کے مطابق کام کرنے لگ جاتے ہیں ۔

(دیکھئے ۔ تفسیر کبیر للرازی /ج۔ ۲۲ ص، ۱۶۶- ۱۶۸، موت القلب او موت الدماغ)

اس کے علاوہ شیخ ارسطو اور ان کے متبعین بو علی سینا اور فارابی وغیرہ دل ہی کو مبدأ و منبع احساس قرار دیتے ہیں اور ان کے نزدیک احساسات و ادراکات کیلئے دماغ کی حیثیت ایک آلہ کی ہے۔

حکماء فلاسفہ اور متکلمین:

قرون وسطیٰ کے حکمائ، فلاسفہ اور متکلمین کے ہاں بھی یہ مسئلہ معرکۃ الآراء رہا ہے چنانچہ بعض حضرات نے تو حواس باطنہ کی بالکلیہ نفی کرتے ہوئے یہ رائے قائم کی کہ تمام امور جزئیہ و کلیہ کا ارتسام نفس ناطقہ میں ہوتا ہے ان لوگوں نے حواس باطنہ کے فلسفے کو بمع تمام تر تفصیلات کے مسترد کر دیا اور دماغ کیلئے کسی نوع کا علم و ادراک بھی ثابت نہیں مانا کیونکہ دماغ میں گوشت پوست اور مغز و استخوان میں بذاتہ ایسی کوئی چیز نہیں جس میں علم نقش ہوتا نظر آتا ہو اور اشیاء کی صور اور تمثیلات وہاں دیکھی جا سکتی ہوں اور علم و ادراک بھی کوئی محسوس اور مرئی چیز نہیں لہٰذا اس کا محل و مرکز نفس ناطقہ ہے جو مادہ کی تلویث اور آلائش سے یکسر پاک اور منزہ ہے۔

لیکن حکماء کے دوسرے طبقہ نے یہ نظریہ پیش کیا کہ اگرچہ تمام امورِ جزئیہ وکلیہ کا مدرک نفس ناطقہ ہی ہے مگر نفس مجرد عن المادۃ اور بسیط ہونے کی وجہ سے براۂ راست جزئیات مادیہ کا ادراک نہیں کرتا ، بلک جزئیات مادیہ کی صور کا ارستام حواس میں ہی ہوتا ہے۔ اس سے یہ واضح ہے کہ علم کے مقام اور محل میں اختلاف کے پیش نظرحواس خمسہ باطنہ کے اثبات اور عدم اثبات میں نظریات مختلف ہیں بعض حضرات ان کو ثابت مانتے ہیں اور بعض حضرات ان کی تردید کرتے ہیں ۔ (دیکھئے ۔ حاشیہ سیالکوٹی علی الخیالی/ ص:۳۳، ص:۳۷- وکشاف اصطلاحات الفنون/ج:۱ ص:۳۰۳ وشرح المواقف/ ج : ۶ ص:۶۳)

قرون وسطی سے لے کر آج تک حواس اور ذہن کے بارے میںسائنس دان متعدد نظریات کے حامل رہے ہیں جن میں جے بی پراٹ، ٹی ایچ ہسکلے، مارگن، الکزنڈر، ہولٹ ڈبلیو آرکلفرڈ وغیرہ کے اساسی اور نظریاتی اختلافات سر فہرست ہیں۔ (دیکھئے ۔ ڈاکٹر ڈی یس رابنس کی کتاب مقدمہ فلفسہ حاضرہ اردو ترجمہ از ڈاکٹر میر ولی الدین / ص:۱۲۲)

سائنس دانوں کاعمومی دعویٰ یہ ہے کہ علم کے ذرائع حواس میں منحصر ہیں لیکن کانٹ اور ان کے متبعین انگریزی مذہب کے فلاسفہ پر زبردست تنقید کرتے ہوئے حوا س میں علم کی محصوریت کی نفی کرتے ہیں ان کا یہ دعویٰ ہے کہ حواس کے علاوہ اور بھی ذرائع علم ہیں ۔

(دیکھئے حکایات فلسفہ مصنفہ ول ڈران اردو ترجمہ از احسان احمد صاحب /ص:۳۲۶)

ڈیوڈ ہیوم اور انکے ہم نواؤں نے تو ذہن کے تصور کو بالکل ہی ختم کر دیا (دیکھئے حکایات فلسفہ/ ص: ۳۲۸، ۳۳۰) اور مونٹین ، شاردن وغیرہ نے حواس اور عقل کے ذریعے سے حاصل شدہ علم کو ناقابل یقین قرار دے کر شک کی راہیں ہموار کیں۔

(دیکھئے تاریخ فلسفہ جدید ، مصنفہ ہیر لڈہونڈنگ اردو ترجمہ از ڈاکٹر عبدالحکیم صاحب/ ج: ۱ ص:۳۴)

سائنس دانوں کا اضطراب:

خلاصہ یہ ہے کہ سائنس دان اس مسئلہ کے صحیح حل میں اضطراب و تحیر میں مبتلا ہیں اور ان کی باتوں میں زبردست انتشار ہے جس کی وجہ سے کئی ارتیابی اورثبوتی فرقوں نے جنم لیا اور کئی نتیجیت اور ہمہ روحیت کی طرف مائل ہے۔

چنانچہ ڈاکٹر ڈی یس رابنسن اس مسئلہ کے متعلق لکھتے ہیں:

سائنس کی رو سے بدن و ذہن کا مسئلہ اب تک لاینحل ہے جیسا کہ باخبر لوگ جانتے ہیں ہمیں اب بھی کسی ما بعد الطبیعاتی نظرئیے یا طریقاتی مفروضے کو اختیار کرنا پڑتا ہے گو بعض علماء نفسیات اس کیخلاف ہمیں متاثر کرنے کی کتنی ہی کوشش کیوں نہ کریں ۔ (مقدمہ فلسفۂ حاضرہ/ ص: ۱۲۴)

نیز یہ امر بھی قابل غور ہے کہ سائنسی تحقیقات ہر دور میں بدلتی رہی ہیں ایک زمانہ میں ایک مفروضہ قائم کیا گیا لیکن آنے ولاے وقت نے جلد ہی ان سائنسی تجربات کی حقیقت عیاں کر دی اور سائنس دانوں کو اس کی بجائے دوسرا نظریہ اپنانا پڑا۔

نئی دریافتیں اتنی زیادہ تعداد میں ہو رہی ہیں اور نظریات اتنی تیزی سے بدلتے رہتے ہیں کہ سائنس دان ہر وقت ایک بحرانی کیفیت میں مبتلا رہتے ہیں بلکہ شاید یہ بحرانی کیفیت جدید سائنس کے مخصوص اندازِ فکرہی سے پیدا ہوتی ہے ۔ (دیکھئے ژاک ماری تن کا مضمون تشریح و تلخیص از حسن عسکری صاحب ، ماہنامہ البلاغ جلد ۲ شمارنمبر۱۰ / ص:۳۸)

لہٰذا سائنسی مفروضات کو حتمی قرار دے کر اس سے ماوراء ہر نظریہ کی تردید کو لازم سمجھنا اور ان بدلتے ہوئے سائنسی تجربات کو آخری اور فیصلہ کن قرار دینا غیر محسوس تقلید کا نتیجہ ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ علم کے مقام اور مرکز کی تعیین کا مسئلہ جدید سائنس کی روشنی میں سائنس کا مسئلہ ہی نہیں بلکہ اس کو سائنس کا مسئلہ قرار دینا اور سائنسی تجربات کی رو سے اس میں گفتگو کرنا ایک مغالطے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا کیونکہ سائنس دان کی نظر میں بحیثیت سائنس دان صرف مندرجہ ذیل چیزیں معنویت رکھتی ہیں۔

(۱)۔ جس چیز کا مشاہدہ کیا جا سکے اور جسے ناپا جا سکے۔

(۲)۔ وہ طریقہ کار جس کی مدد سے مشاہدے اور پیمائش کا کام تکمیل پائے ۔

(۳) مشاہدے اور پیمائش کے ذریعے حاصل ہونے والے حقائق کی از سر نو تشکیل جو ریاضی کی مدد سے انجام پاتی ہے اور جس میں کم و بیش وحدیت پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

( ماہنامہ البلاغ، جلد ۲ شمارہ نمبر ۱۰/ ص:۲۹)

اسی لیے جدید سائنس کے تحت جو علوم آتے ہیں انہیں ’’علم مظاہر‘‘

(Science Of Phenomenor) کہا جاتا ہے۔

پروفیسر ژاک ماری تن لکھتے ہیں ۔

سائنس حقیقت تک پہنچتا تو ہے لیکن اس حقیقت کے صرف مظاہری پہلو کو دیکھتا ہے یعنی ا س پہلو کو جس کی تعریف مشاہدے اور پیمائش کے ذریعے متعین ہوتی ہے (البلاغ ، جلد ۲ شمار نمبر ۱۰/ ص:۱۰)

ایک اور مقام پر پروفیسر موصوف، سائنس اور فلسفے کے بنیادی فرق کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔

سائنس مظاہر کا علم ہے اس کے ثمرات تو عجیب و غریب ہوتے ہیں لیکن ان کی قیمت انقلابی تبدیلیوں کی شکل میں ادا کرنی پڑتی ہے سائنس کا کام یہ ہے کہ مادے اور فطرت میں عمل اور رد عمل کے جو بہت سے قابل مشاہدہ اور قابل پیمائش سلسلے چلتے رہتے ہیں ان کے رموزی نقشے ہمارے لیے تیار کر دے اس بیان سے چار نتائج بیان برآمد ہوتے ہیں۔

(۱)۔ سائنس کا موضوع مظاہر ہیں ،روح اور خدانہیں دوسرے الفاظ میں سائنس کا موضوع کثرت ہے وحدت نہیں۔

(۲)۔ سائنس کا طریق کار مشاہدہ اور پیمائش ہے جوان حقائق کا علم حاصل کرنے میں مفید نہیں ہو سکتا جہاں مشاہدہ اور پیمائش ممکن نہیں ۔

(۳)۔مادے کے سلسلے میں بھی سائنس صرف اس کے عوامل کا مطالعہ کرتا ہے۔

(۴)۔ اگر مادے اور فطرت کی حقیقت سمجھنے کا سوال ہو تو سائنس عوامل سے آگے نہیں جا سکتا۔

(البلاغ، جلد ۲ شمار نمبر ۱۲/ ص:۲۸)

زیر بحث مسئلہ سائنسی تجربات اور مشاہدات کے دائرے سے خارج ہے کیونکہ جدید سائنس میں کسی چیز کے مظاہری پہلو سے بحث کی جاتی ہے اور علم و ادراک اور ان کے مقام و محل کی تعیین کا مسئلہ مشاہدہ و حس کی دسترس سے خارج ہے البتہ اگر اسے فلسفے کا مسئلہ قرار دیا جائے تو بجا ہے کیونکہ فلسفی کی نظر اشیاء کے مظاہری پہلو سے آگے ما بعد الطبیعات تک سے بحث کرتی ہے (اور اس بارے میں فلاسفہ کے مختلف نظریات اور اختلافی اقوال گذشتہ صفحات میں قلمبند کئے جا چکے ہیں)۔

محققین فلاسفہ اور حکماء زیر بحث مسئلہ میں تنگ نظری اور محدودیت کے حصار میں محبوس نہیں رہتے بلکہ تمام تر اختلافات کے باوجود اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ دماغی عصبات اور حسی مشاعر تک علم و ادراک کی تحصیر نہیں بلکہ اصل مدرک اور عالم نفسِ ناطقہ مجرد عن المادہ ہے۔

علم طب، جسم اور اس کی صحت و مرض تندرستی و بیماری کے دائرہ سے خاج امور سے بحث نہیں کرتا، اس کا موضوع جسم اور عوارض جسم من حیث الصحۃ والمرض میں منحصر ہے لہٰذا اطباء کی دماغی مشاعر کی تشریحات اور حواس کی تحصیران کا موضوع بحث اور ان کے علم کا دائرہ کار ہے علم طب میں نفسِ ناطقہ اور روحانی امور سے بحث کرنا جہاں خروج عن المبحث ہو گا وہاں یہ طبی نقطہ نظر میں لا یعنی بحث ہو گی۔

سائنسی اور طبی تجربات اپنے اپنے موضوع علم کے اندر رہتے ہوئے زیر بحث مسئلہ میں کافی و شافی رہنمائی سے قاصر ہیں جہاں تک طبی تجربات یا سائنسی حقائق کی رسائی ہو سکی ہے تو صرف وہاں تک تحقیقات کے بعد اس کو مسئلے کا کلی حل سمجھ کر کے بیٹھ جانا تنگ نظری ہے۔

محض سائنسی تجربات کی عدم رسائی کو ان دینی مذہبی تصورات کے خلاف ہر گز نہیں کہا جائے گا کیونکہ عالم غیب اورعالم امر کے مشاہدات اور تجربات سے سائنسی آلات بے بس اور عاجز ہیں اور بے بسی و درماندگی میں تقابل اور تصاد م کی بجائے تسلیم وقبولیت کا رنگ ہونا چاہیے۔

قلب کے معانی:

سائل کو سب سے بڑا اشتباہ یہ ہوا کہ قرآن پاک کی آیات اور احادیث مبارکہ کی نصوص میں جہاں کہیں ’’قلب‘‘ کا لفظ آیا ہے تو اس سے ایک ہی معنیٰ(قلب جسمانی) مراد لیا گیا اور اس کے بعد کی تمامتر تفریعات اسی پر مبنی ہین جن سے شکوک و شبہات نے جنم لیا، جبکہ ’’قلب‘‘ کا لفظ مندرجہ ذیل متعد د معانی کیلئے استعمال ہوا ہے۔

(۱) گوشت کا ٹکڑا جو سینہ کے بائیں جانب موضوع ہے۔ (۲) عقل (۳) جوہر نورانی (۴) کسی چیز کا وسط (۵) کسی چیز کا خلاصہ اور مغز (۶)رائے اور تدبیر (۷) معرفۃ (۸) ادارک وتعقل۔

(دیکھئے۔ مختار صحاح المعجم الوسیط، لسان العرب، بحوالہ ، مجلہ مجمع الفقہ الاسلامی، العدد الثالث الجزء الثانی/ ص: ۶۱۱، کشاف اصطلاحات الفنون/ ج:۳ ص:۱۱۷۰، حاشیہ شرح المقاصد للدکتورر عبدالرحمن عمیرہ / ج:۲ ص:۳۳۰ ، بیضاوی مع شیخ زادہ / ج: ۱ ص: ۱۲۳ و حاشیۃ القنوی علی البیضاوی / ج: ۱ ص:۲۷۵)

قرآن پاک اور احادیث مبارکہ میں بیشتر مقامات پر لفظ ’’قلب‘‘ سے یہ جسمانی قلب(گوشت کا ٹکڑا) مراد نہیں کیونکہ ’’قلب‘‘ اس معنی کے اعتبار سے گوشت کا ایک حصہ ہے جو عالم محسوسات ظاہر ی میں ہے اور بہائم بلکہ مردہ میں موجود ہے جس سے کوئی دینی غرض متعلق نہیں (البتہ یہ اطباء کا موضوع بحث ہے) بلکہ قرآن پاک اور احادیث مبارکہ میں اکثرو بیشتر مقامات پر ’’قلب‘‘ سے مراد جوہر نورانی اور لطیفہ ربانی ہے جس کو قلب جسمانی سے خاص تعلق ہے مگر اس تعلق کے ادراک میں انسانی عقول متحیر و مضطرب ہیں اس تعلق کے بارے میں تمثیلاً یہ کہا جا سکتا ہے کہ جیسے اعراض کا اجسام سے یا صفات کا موصوف سے یا کاریگر کا آلہ سے یا مکین کا مکان سے تعلق ہوتا ہے کچھ اسی طرح قلب روحانی اور قلب جسمانی کا تعلق سمجھ لیا جائے۔

قلب (بمعنی جوہر نورانی) کو کبھی ’’عقل‘‘ سے بھی تعبیر کرتے ہیں اور کبھی اس پر ’’روح‘ کا اطلاق بھی کیا جاتا ہے اور کبھی لفظ ’’نفس‘‘ بولا جاتا ہے۔

یہی جوہر اور لطیفہ انسان کی حقیقت اور مدرک ، عالم، مخاطب ، معاتب مکلف اور معدن اخلاق وملکات ہے قرآن پاک اور احادیث مبارکہ میں اسی کی اصلاح کا ذکر ہے کیونکہ قلب جسمانی کی اصلاح اور صحت سے بحث طبی مسائل کا نقطہ نظر ہے اور قرآن پاک کا ہدف نہ ہی طبی دقائق اور باریکیاں بیان کرنا ہے اور نہ سائنسی پیچیدگیوں کا حل تلاش کرنا ہے بلکہ یہ اصلاحِ خلق کیلئے اللہ تعالیٰ کا نازل فرمودہ کلام ہے جو اللہ نے بنی نوعِ انسان کی رشد و ہدایت اور صلاح وفلاح کیلئے عام فہم اور سادہ اندا ز میں نازل فرمایا ہے۔

(ماخذہ۔ احیاء العلوم للغزالی/ ج: ۳ ص: ومجموعہ رسائل للغزالی / ج: ۳ ص:۳۱۔۳۲، ومجلہ مجمع الفقہ الاسلامی، العدد الثالث، الجزء الثانی / ص: ۵۹۴ وما بعدہ وص:۶۱۱ وما بعدہ )

ڈاکٹر محمد علی البار لکھتے ہیں ۔

قلب (بمعنی لطیفۂ ربانیہ، مدرکہ ، عالمہ ) کے ادنیٰ سر تک بھی علوم تجربیہ (سائنس) اور طب کی رسائی نہیں تو اس کی حقیقت کی معرفت بڑی دور کی بات ہے (موت القلب او موت الدماغ/ ص:۱۴)

آخری گذارش:

ہر آدمی کا اپنے مطالعہ اور اپنی تحقیق پہ اعتماد کرتے ہوئے علوم نقلیہ و عقلیہ کے مسائل کے مابین موازنہ کرنا بڑی خطرناک بات ہے اس کیلئے درج ذیل علوم و فنون(جیسے منطق، فلسفہ، صرف ، نحو، ادب، بلاغۃ، علم کلام، فقہ و اصول فقہ، تفسیر و اصول تفسیر ، حدیث و اصول حدیث وغیرہ) میں کمال مہارت شرط ہے اس کے بغیر جا بجا بھٹکنے اور ٹھوکریں کھانے کا قوی احتمال ہے اس لیے ہمدردانہ گذارش ہے کہ قرآن پاک اور احادیث ِ مبارکہ کے صحیح فہم کیلئے خود انحصاری اور خود اعتمادی کی بجائے کسی مستند اور ماہر عالم دین سے رجوع کرنا چاہیے اور وقت کے چلتے ہوئے نعروں سے متأثر ہو کر خالق کائنات اللہ جل شانہ کے کلام ازلی میں بیان کردہ اصولی اور سرمدی حقائق میں شکوک و شبہات پیدا کرنے یا انہیں رد کرنے سے ہر قیمت پر پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ اگر خیال نہ رکھا جائے تو شیطانی وساوس انسان کو صراط مستقیم سے گمراہ کر بیٹھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس گمراہی سے محفوظ رکھیں۔