+(00) 123-345-11

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان دین متین اس مسئلے کے بار ے میں کہ کوئی آدمی نماز میں بعدوالی سورت پہلے پڑھے اور پہلے والی سورت بعد میں پڑھے یعنی ترتیب کو مدِ نظر نہ رکھے تو ایسے شخص کی نماز ہو گی کہ نہیں؟ ترتیب واجب ہے کہ سنت؟ نیز ترتیب نزولی اور عثمانی کی تفصیل قرآن و حدیث کی روشنی میں تفصیل سے واضح فرما ئیں؟

فرض نماز میں قرأت کے اندر سورتوں میں ترتیب کا لحاظ رکھنا یعنی ایک سورت پڑھنے کے بعد دوسری رکعت میں اس سے آگے والی سورت پڑھنا واجب ہے قصداً ترتیب کو چھوڑنا مکروہ ہے ترتیب کالحاظ نہ رہنے کی صورت میں نماز ہو جاتی ہے اور سجدہ سہو بھی لازم نہیں ہوتا البتہ نوافل اور سنتوں میں ترتیب کا لحاظ رکھنا ضروری نہیں ہے۔

(۲) جس ترتیب سے آنحضرت ا پر قرآن نازل ہوا تھا اس کو ’’ترتیب نزولی‘‘ کہا جاتا ہے۔ ترتیب نزولی کو محفوظ رکھنے کی کوشش نہ تو آپ ا نے کی اور نہ ہی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے کی۔ اس لیے جب قرآن پاک مکمل نازل ہو چکا تو لوگوں کو یہ بھی یاد نہیں رہا کہ کونسی آیت کس ترتیب سے نازل ہوئی۔ لہذا اب جزوی طور پر بعض سورتوں یا آیتوں کے بارے میں علم ہو جاتا ہے کہ ان کی ترتیب نزول کیا تھی لیکن پورے قرآن کی تریب نزول یقین کے ساتھ بیان نہیں کی جا سکتی۔

ترتیب عثمانی وہ ہے جس کو حضرت عثمانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے چار صحابہ حضرت زید، حضرت عبداللہ بن زبیر، سعید بن العاص، عبدالرحمان بن الحارث رضوان اللہ علیہم اجمعین سے اپنے زمانہ خلافت میں جمع کرایا تھا۔ ان حضرات نے قرآن پاک کی ترتیب اور جمع کے سلسلہ میں درج ذیل کام انجام دیئے۔

(ا) سورتوں کو اسی ترتیب سے مرتب کر کے ایک ہی مصحف میں لکھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صراحتاً بتلا چکے تھے۔

(۲) قرآن کریم کی آیات اس طرح لکھی گئی کہ رسم الخط میں تمام متواتر قرأتیں سما جائیں۔ اس کام کے لیے انہیں صحیفوں کو سامنے رکھا جو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ خلافت میں لکھے گئے تھے۔ چنانچہ اب اس پر اجماع ہے کہ رسم الخط اور سورتوں کی ترتیب میں مصحف عثمانی کا اتباع لازم ہے اور یاد رہے کہ مصحف عثمانی میں آیات اور سورتوں کی ترتیب وہی تھی جو کہ بذریعہ وحی متعین کر دی گئی تھی حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت ا پر جب کوئی آیت نازل ہوتی تو آپ کا تبین وحی کو ساتھ یہ بھی بتلا دیتے کہ یہ آیت فلاں سورت میں فلاں آیت کے بعد لکھ دی جائے۔ (الاتقان :۱/۶۵)

لما فی ’’روح المعانی‘‘: ۔

واما ترتیب السور ففی کونہ اجتھاد یا او توقیفا خلاف والجمھور علی الثانی، قال العلامۃ الاٰ لوسی البغدادی: والذی ینشرح لہ صدر ھذا الفقیر ھو ما انشرحت الاٰن موافق لما فی اللوح من القرآن وحاشا ان یھمل ﷺ امر القرآن وھو نور نبوتہ وبرھان شریعۃ فلا بد امامن التصریح بمواضع الآی والسور واما من الرمز الیھم بذلک واجماع الصحابۃ فی الماٰل علی ھذا الترتیب (۱/۲۶)

وفی ’’فتح الباری‘‘: ۔

ولا خلاف ان ترتیب اٰیات کل سورۃ توقیف من اللہ (۹/۴۰)

وفی ’’الہندیۃ‘‘: ۔

واذا قرأ فی رکعۃ سورۃ وفی الرکعۃ الاخریٰ او فی تلک الرکعۃ سورۃ فوق تلک السورۃ یکرہ ھذا کلہ فی الفرائض اما فی السنن فلا یکرہ (۱/۴۰)

وفی ’’الدر المختار‘‘

ویجب بترک واجب وفی الشامیۃ قولہ بترک واجب ای من واجبات الصلاۃ الاصلیۃ لا کل واجب اذ لو ترک ترتیب السور لا یلزمہ شیٔ