+(00) 123-345-11

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین درج ذیل مسئلہ میں کہ ایک تاجر کسی دوسرے تاجر سے پاکستانی روپوں کے بدلے دو لاکھ ڈالر خریدتا ہے اب وہ دو لاکھ ڈالر کی قیمت بیک وقت نقد ادا نہیں کرتا بلکہ کچھ حصہ پچاس لاکھ روپے بروقت ادا کرتا ہے جبکہ باقی روپے ہفتہ وار قسطوں کی صورت میں مثلاً ہر ہفتہ دس لاکھ روپے ادا کرتا ہے اور قسطوں میں ادائیگی کی وجہ سے قیمت زیادہ مقرر کرتا ہے مثلاً جس دن سودا طے ہو رہا ہے اس ڈالر کی قیمت تریسٹھ روپے پندرہ پیسے (63.15) تھی مگر فریقین معاملہ طے کرتے ہوئے قسطوں میں ادائیگی کو مدنظر رکھتے ہوئے قیمت تریسٹھ روپے پچھتر پیسے (63.75) پر اتفاق کر لیے ہیں اب صورت مسئولہ میں دو باتیں اہم ہیں:

-1 یہاں ڈالروں کی قیمت یکمشت ادا نہیں کی جا رہی ہیں لہٰذا یدًا بیدٍ کی صورت مکمل موجود نہیں۔

-2 قیمت میں اضافہ قسطوں میں ادائیگی کی وجہ سے کیا جا رہا ہے۔

برائے مہربانی اس مسئلہ میں قرآن کریم اور سنت نبویہ کے دلائل کی روشنی میں مدلل و محکم جواب عنایت فرما کر خلق خدا کی راہنمائی فرمائیں اور عنداللہ مأجور ہوں۔

سوال کے جواب سے پہلے چند باتوں کا جاننا ضروری ہے۔

-1 ثمن کی دو قسمیں ہیں:

-1 ثمن خلقی -2 ثمن عرفی (رائج الوقت کرنسی)

ثمن خلقی وہ ثمن ہے جو خلقتاً ثمن ہو یعنی شریعت میں اس کی وضع ہی ثمن بننے کیلئے ہو) ثمن خلقی صرف دو چیزیں ہیں سونا اور چاندی۔

ثمن عرفی وہ ثمن ہے جس کو لوگوں نے آپس میں لین دین کا ذریعہ بنا لیا ہو،۔

اگر ثمن خلقی کا آپس میں تبادلہ ہو اس کی دو صورتیں ہیں۔

-1کبھی دونوں کی جنس ایک ہوتی ہے جیسے سونے کا سونے کے ساتھ تبادلہ ہو اور چاندی کا چاندی کے ساتھ تبادلہ ہو ۔

-2 اور کبھی دونوں کی جنس مختلف ہوتی ہے جیسے چاندی کا سونے کے ساتھ تبادلہ کیا جائے۔

-3 بیع صرف یعنی ثمن خلقی کی ایک دوسرے کے ساتھ بیع میں اگر تبادلہ کے وقت دونوں کی جنس ایک ہو جیسے سونے کا سونے کے ساتھ تبادلہ ہو اس میں دو شرطوں کا پایا جانا ضروری ہے۔

(۱) تقابض فی المجلس یعنی دونوں معاملہ کرنے والے مجلس عقد میں عوض پر قبضہ کر لیں)۔

(۲) تفاضل (کمی بیشی) نہ ہو۔

لیکن اگر بیع صرف میں جنس مختلف ہو جیسے سونے کا چاندی کے ساتھ تبادلہ ہو تو اس میں صرف ایک شرط کا ہونا ضروری ہے یعنی تقابض فی المجلس (مجلس عقد میں ہر ایک عوض پر قبضہ کر لے) البتہ تفاضل (کمی بیشی) جائز ہے۔

-4 درج بالا تفصیل ’’ثمن خلقی‘‘ کے متعلق تھی ’’ثمن عرفی‘‘ (رائج الوقت کرنسی) کی تفصیل اس سے کچھ مختلف ہے۔

-5 مختلف ممالک کی کرنسیا ں(ثمن عرفی) ہے صرف معاملہ کرنے کی حد تک سونے، چاندی کا بدل ہیں حقیقت میں سونے چاندی کا بدل نہیں ہیں لہٰذا ثمن عرفی پر مکمل طورپر سونے اور چاندی کے احکام جاری نہیں ہوں گے بلکہ ان پر فلوس (رائج الوقت سکوں) کے احکام جاری ہوں گے۔

-6 ثمن عرفی(رائج الوقت کرنسی)کے تبادلہ کی دو صورتیں ہیں۔

(۱) ایک ملک کی کرنسی کا تبادلہ اسی ملک کی کرنسی سے ہو۔

(۲)دو مختلف ممالک کی کرنسیوں کا آپس میں تبادلہ ہو۔

اگر ایک ملک کی کرنسی کا تبادلہ اسی ملک کی کرنسی سے ہو تو اس کا حکم یہ ہے کہ اس تبادلہ میں تفاضل (کمی بیشی) ناجائز ہے البتہ مجلس عقدمیں کسی ایک کا عوض پر قبضہ کر لینا ضروری ہے۔

اگر مختلف ممالک کی کرنسیوں کا آپس میں تبادلہ ہو تو ان میں تفاضل جائز ہے البتہ عقد کرنے والوں میں سے کسی ایک کا عوض پر قبضہ کر لینا ضروری ہے۔

لہٰذا صورت مسؤلہ میں اگر ڈالروں پر مجلس عقد میں قبضہ کر لیا جاتا ہے تو ان کا یہ معاملہ جائز ہے اور قسطوں میں ادا کرنے کی وجہ سے زیادہ قیمت متعین کرنا بھی چند شرائط کے ساتھ جائز ہے۔

(۱) مجلس عقد میں قسطوں کو متعین کر لیا جائے۔ (۲) ادائیگی کا وقت بھی متعین ہو۔ (۳) قسطوں کی ادائیگی میں تاخیر کرنے کی صورت میں اصل قیمت پر اضافہ نہ کیا جائے اور وقت سے پہلے ادا کرنے کی صورت میں کسی قسم کی کمی نہ کی جائے۔

وفی ’’کتاب المبسوط‘‘ :

واما عندنا: فالفلوس الرائجۃ بمنزلۃ الاثمان لاصطلاح الناس علی کونھا ثمنا للاشیار فانما یتعلق العقد بالقدر المسمی منھا فی الذمۃ و ان لم یتقابضا حتی افترقا بطل العقد لانہ دین بدین و بیع الفلوس بالدراھم لیس بصرف (باب البیع بالفلوس) (۱۴/۶۴)

وفی ’’فتح القدیر‘‘ :

ولو باغ فلسا بفلسین یجوز علی ما سلف فی باب الربا الخ (۶/ ۲۷۷)

وفی ’’الدر المختار‘‘ :

باع فلو سا بمثلھا او بدراھم او بدنانیر فان نقد احدھما جاز وان تفرقا بلا قبض احدھما لم یجز ۵/۱۸۵)

وفی ’’کتاب الفقہ علی المذاھب الاربعۃ‘‘ :

اما الفروش وغیرھا غیر الذھب والفضہ کالینکل والبرو النحاس و تسمی فلوسا و لا یشترط فیھا التقابض من الجانبین (مبحث الصرف ، ۴/ ۲۷۳)

وفی ’’اعلاء السنن‘‘ :

فالجواب الصحیح: ان یمنع کون بعض الثمن فی الصورۃ المذکورۃ بمقابلۃ الاجل و یقال ان کل الثمن بمقابلۃ المبیع الا انہ فی صورۃ النقد قابلہ بثمن اقل و فی صورۃ نسیۃ بثمن اکثر (۵/۸۲)

و فی’’شرح المجلۃ‘‘ :

یلزم ان تکون المدۃ معلومۃ فی البیع بالتأجیل حیل و التقسیط لان جھالتہ تفضی الی النزاع (المادۃ :۲۴۶)

وفی ’’الفقہ الاسلامی وادلتہ‘‘ :

اجاز بیع الشیء فی الحال لاجل او بالتقسیط باکثر من ثمنہ النقدی الخ (۵/۳۴۶)