+(00) 123-345-11

ریاض نامی آدمی نے دوسرے شہر میں رہنے والے دوکاندار کو ٹیلی فون کے ذریعہ سامان لکھوایا اور سامان بھیجنے کا کہا پس دوکاندار نے سامان اس دن نہیں بھیجا بلکہ چند دن کے بعد بھیجا اور سامان کے گاڑی پر بھیجنے کی اطلاع دی۔ اپنی واقفیت اور ذمہ داری پر یہ گاڑی دوکاندار نے بک کروائی جبکہ گاڑی کا مکمل کرایہ ریاض کے ذمہ ہے۔ دوکاندار نے ریاض کی اجازت کے بغیر گاڑی میں ایک عدد فریج رکھوا دی جس کو ریاض کے شہر سے پہلے شہر میں اتارنا تھا؟ صورت مذکورہ کے بعد گاڑی سامان کے ساتھ چلی اور دوسرے شہر فریج کو اتارا اس کے بعد گاڑی ریاض کے شہر کی طرف چلی چند میل کے بعد ڈاکوئوں نے سامان اور گاڑی غصب کر لی اور گاڑی کے ڈرائیور کو دوسری جگہ لے جا کر پھینک دیا چنانچہ گاڑی اور سامان اب تک نہیں ملے تو اب سامان کا مالک ریاض ہے یابھیجنے والا دوکاندار اور کس کا نقصان ہوا؟

سوال سے بظاہر یہ معلوم ہو رہا ہے کہ مذکورہ صورت میں گاڑی کا ڈرائیور عرفاً بائع (دکاندار) کا نمائندہ ہے نہ کہ مشتری کا اگر واقعتا ایسا ہی ہے تو اس صورت میں چونکہ سامان خریدار یا اس کے کسی وکیل کے قبضہ سے پہلے ضائع ہوا ہے اس لیے یہ نقصان بائع کو برداشت کرنا ہوگا اور خریدار پر اس سامان کی قیمت لازم نہیں ہوگی۔

ولو ھلک فی یدالبائع انفسخ البیع ولا شئی علی المشتری اعتبار ابا لصحیح المطلق۔ (ہدایۃ ص ۳۱، ج ۳)