+(00) 123-345-11

بریلوی مسلک میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو نور اور حاضر ناظر کہتے ہیں جبکہ دیوبندی مسلک میں یہ باتیں نہیں مہربانی کر کے بریلوی حضرات کے دلائل کے جوابات ذکر کریں۔



قرآن و سنت کی واضح نصوص میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام انبیاء کے متعلق یہ عقیدہ واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور جملہ انبیاء کرام طبقۂ انسانی سے تعلق رکھتے تھے اور انسانوں کی جانب انہیں میں سے ایک فرد کا انتخاب کرکے نبوت و رسالت سے سرفراز کر کے بھیجا گیا مگر نبی و رسول سب انسانوں سے افضل انسان ہوتے ہیں۔



ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

لقد من اللّٰہ علی المؤمنین اذ بعث فیھم رسولا من انفسھم۔ الخ۔ )الایۃ: ۳/۱۶۴(

ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں پر احسان فرمایا جب ان کے درمیان انہی میں سے ایک رسول بھیجے۔



اس آیت کریمہ سے یہ واضح ہے کہ نبی انسانوں میں سے ہوا کرتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ انسانوں کی ہدایت کے لیے مبعوث فرماتے ہیں، وہ انسانوں کے علاوہ کسی اور نسل سے تعلق نہیں رکھتے ورنہ انسان انہیں یہ کہہ سکتے ہیں کہ تمہارے ساتھ تو یہ خواہشات اور ضروریات نہیں لگیں جو ہمارے ساتھ ہیں لہٰذا تم تو دین پر آسانی سے چل سکتے ہو جبکہ ہمارے لیے اس پر چلنا آسان نہیں ہے۔



اسی طرح قرآن و سنت کی آیات اور صریح روایات سے یہ واضح ہے کہ نبی ہر جگہ حاضر و ناظر اور موجود نہیں ہوتے بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی صفت ہے کہ وہ ہر جگہ موجود اور ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہیں، چنانچہ سورۃ النور رکوع نمبر ۲ کی آیات، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی برأت کے متعلق نازل ہوئیں، جب منافقین نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگائی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سخت پریشان ہوئے اور ایک مہینہ تک تشویش میں مبتلا رہے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض صحابہ کرامؓ سے حضرت عائشہ کو رکھنے یا چھوڑنے کے بارے میں مشورہ لیا مگر جب اللہ تعالیٰ نے آیات قرآنیہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی برأت کو نازل فرمایا تو ہر طرح کی پریشانی ختم ہو گئی اور معلوم ہو گیا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پاک دامن ہیں۔



اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر جگہ حاضر و ناظر ہوتے تو انہیں معلوم ہوتا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا تو اس تہمت سے بری اور معصوم ہیں اور یہ افواہ منافقین کی اُڑائی ہوئی ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں ہے، کیونکہ حاضر و ناظر ہونے کی صورت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس جگہ میں موجود ہوتے جہاں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا لشکر سے بچھڑ کر بیٹھی رہی تھیں اور ساری صورتحال آپ صلی اللہ علیہ کے علم میں ہوتی۔ اس سے یہ واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ جس کو جس قدر علم عطا فرمائیں اور احوال پر مطلع فرمائیں اسے فقط اسی کا علم ہوتا ہے اس سے زائد کا نہیں ہوتا۔



قرآن کریم کی بعض آیات اور بعض احادیث مبارکہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو صفات اور ہدایت کے کام کے اعتبار سے نور کہا گیا ہے کہ آپ کے ذریعہ پوری دنیا میں نورِ ہدایت پھیلا اور آپ اللہ تعالیٰ سے ہدایت کی نورانی تعلیمات لے کر آئے جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن کریم میں سراجا منیراً )الایۃ : ۳۳/۴۵( ’’روشن چراغ‘‘ کہا گیا ہے جس معنی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو روشن چراغ کہا گیا ہے اسی معنی کے اعتبار سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نور بھی کہا گیا ہے جبکہ بے علم لوگوں نے ان الفاظ کے ظاہر کو پیش نظر رکھتے ہوئے حضرات انبیاء کرام علیہم السلام اور بالخصوص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو زمرۂ انسانیت سے خارج کر کے نورانی مخلوق کی طرف منسوب کر دیا جبکہ انسانیت کی جانب نسبت نوری مخلوق کی نسبت سے بہتر ہے۔



اسی طرح قرآن و سنت میں بعض واقعات ایسے ملتے ہیں جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی طرف سے بتلائے گئے امور مثلاً قیامت کے نشانات وغیرہ کے بارے میں خبر دی ہے اور یہ غیبی امور بھی انبیاء کرام اللہ کی طرف سے مطلع ہو کر دوسروں کو بتاتے ہیں اور جب تک خدا انہیں نہ بتلائے تو انہیں علم نہیں ہوتا بعض لوگوں نے اس قسم کے واقعات کو بنیاد بنا کر یہ عقیدہ نکالا ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام حاضر و ناظر اور عالم الغیب ہیں، کیونکہ انہوں نے بعض غیبی امور کے بارے میں لوگوں کو بتایا ہے، لیکن یہ عقیدہ صحیح نہیں کیونکہ انبیاء کرام ہر غیبی بات بتانے میں خدائی ہدایت کے محتاج رہتے ہیں اور اللہ جس بات کے بارے میں علم نہ دے اسے نہیں جانتے اور جو شخص ایسا ہو کہ وہ غیبی امور ازخود نہ جان سکے اور جس کو خدا کی طرف سے جتنا علم ملے فقط اسی کے بارے میں بتلائے اور جو نہ ملے اس کے بارے میں خاموشی اختیار کرے وہ حاضر و ناظر اور عالم الغیب کی تعریف میں نہیں آتا، حاضر و ناظر اور عالم الغیب اس کو کہتے ہیں جو ہر وقت ہر جگہ موجود ہو اور جس کی نگاہ سے کوئی شے مخفی نہ ہو اور ہر پوشیدہ اور مخفی امر کو وہ ذاتی طور پر بغیر عطا کے ہر لمحہ جانتا ہو، اور ظاہر ہے کہ ایسا علم رکھنے والا صرف اور صرف اللہ ہے، یہی وجہ ہے کہ قرآن و سنت میں کسی بھی جگہ اللہ کے علاوہ کسی اور کے لیے حاضر و ناظر یا عالم الغیب کا لفظ نہیں بولا گیا۔



دوسری بات یہ ہے کہ غیب کے امور کی خبر دینا یا معجزات دکھانا دلیل نبوت و رسالت ہے، دلیل علم غیب اور دلیل حاضر و ناظر نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نبی علیہ السلام یا کسی بھی نبی نے کسی بھی معجزہ کے دکھانے کے بعد ہرگز یہ دعویٰ نہیں کیا کہ وہ عالم الغیب یا حاضر و ناظر ہیں ہاں البتہ معجزہ دکھانے کے بعد یہ ضرور کہا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے رسول اور نبی برحق ہیں۔ لہٰذا معجزہ جو دلیل نبوت و رسالت ہوا کرتا ہے بے علم لوگ اس کو دلیل حاضر اور ناظر و دلیل علم غیب بنا لیتے ہیں جو انبیاء کرام علیہم السلام کے مقام اور تعلیمات سے ناواقفی پر مبنی ہے۔