+(00) 123-345-11

شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ نے حنفیہ کو مرجیہ اور اصحاب الرأی قرار دیا ہے کیا یہ درست ہے؟

(۱) شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ نے مرجیہ میں امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کو داخل نہیں کیا بلکہ بعض ان لوگوں کو مرجیہ کہا ہے جو فقہ میں حنفی مذہب رکھنے کے باوجود اصولاً و فروعاً مرجیہ کے اس باطل گروہ اور فرقہ سے تعلق رکھتے تھے جو اہل سنت کے مسلک حق کے خلاف تھا لیکن ان کے مرجیہ ہونے سے امام صاحب اور ان کے اصحاب پر کیا زد پڑ سکتی ہے چنانچہ حافظ ابن عبدالبر نے جامع بیان العلم (ج ۲، ص ۱۴۸) میں اور شاہ ولی اللہ محدث دھلوی رحمۃ اللہ علیہ نے تفہیمات الٰہیہ میں اس بحث کو تفصیل سے ذکر کیا ہے تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں۔ (مقام ابی حنیفہ از حضرت مولانا سرفراز خان صفدر صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ ص ۱۲۰)

(۲) مختلف احادیث، آثار صحابہ اور اقوال علماء سے جس رائے کی مذمت ثابت ہے اس سے مراد ایسی رائے ہے جو کتاب و سنت سے متصادم ہو یا جس رائے کی بنیاد کتاب و سنت اور اجماع امت پر نہ رکھی گئی ہو جبکہ ایسی رائے جو ان تینوں میں سے کسی اصل پر مبنی ہو وہ احادیث، آثار صحابہ، اور علماء امت کے اقوال کی روشنی میں محمود اور مقبول ہے چنانچہ علامہ ابن عبدالبر نے (الانتقاء ص ۱۴۳) میں امام صاحب کا یہ قول نقل کیا ہے کہ امام صاحب نے فرمایا کہ میں جب کسی مسئلہ کو کتاب اللہ سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ور اقوال صحابہ میں نہیں پاتا تو پھر اجتہاد کرتا ہوں۔ اس سے معلوم ہوا کہ امام صاحب نہ تو قرآن و سنت اور اقوال صحابہ سے بے نیاز تھے اور نہ ہی منکر بلکہ کھلے الفاظ میں یہ فرماتے تھے کہ میں اپنی رائے سے اس وقت کام لیتا ہوں جب قرآن حدیث اور اقوال صحابہ میں کوئی مسئلہ نہیں ملتا۔ اس صورت میں امام صاحب رحمہ اللہ کا وقت کی کسی اہم ضرورت کو اپنی تدبیر اور تفقہ سے حل کر کے امت مرحومہ پر احسان فرمانا داد تحسین کا مستحق ہے نہ کہ باعث تنقید۔ اور رائے محمود و مقبول کا اعتبار آئمہ متبوعین سے منقول ہے، خود امام احمد رحمہ اللہ کے مسلک کی فقہی کتب میں ان کے اختلافی اقوال کے ضمن میں ان کی آراء کا تذکرہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اس قسم کی مقبول رائے کے وہ بھی قائل تھے اور نہ وہ سرے سے رائے کا انکار کرتے تھے اور نہ اہل الرائے کو علی الاطلاق برا جانتے تھے۔