+(00) 123-345-11

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام کہ پگڑی سسٹم کے تحت دکان؍مکان کا لین دین جائز ہے یا نہیں؟

مروجہ پگڑی جس کا حاصل یہ ہے کہ کوئی شخص اپنا مکان یا دکان طویل عرصہ کے لئے کرایہ پر دیتا ہے اور کرایہ دار سے اصل کرایہ کے علاوہ کچھ رقم وصول کرتا ہے اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ کرایہ دار کا دکان یا مکان پر حق پختہ ہو جائے اور اس مدت میں مالک کسی اور کو دکان یا مکان نہ دے سکے چونکہ یہ رقم اصل کرایہ کے علاوہ ہے جو کہ رشوت ہونے کی وجہ سے حرام ہے تاہم شرعاً اس کا متبادل یہ ہے کہ کچھ رقم ایڈوانس وصول کر لی جائے اور اس کو متعینہ مدت کا پیشگی کرایہ سمجھا جائے۔ اور یہ رقم ماہانہ کرایہ کے علاوہ ہوگی لیکن یاد رہے کہ اس صورت میں کرایہ پر دینے کے احکام جاری ہوں گے۔ ۱۔ اگر متعینہ مدت سے پہلے یہ معاملہ ختم ہو جاتا ہے تو پیشگی وصول کی گئی رقم میں سے باقی ماندہ مدت کے مقابلہ میں جتنی رقم آتی ہے اس کو واپس کرنا ضروری ہے۔ ۲۔متعینہ مدت کے اندر کرایہ دار دکان یا مکان کسی اور کو دے سکتا ہے اور اس سے دستبرداری اور صلح کے طور پر معاوضہ بھی حاصل کر سکتا ہے۔ ۳۔متعینہ مدت کے اندر مالک کے لئے بغیر کسی شرعی عذر کے اس معاملہ کو ختم کرنا جائز نہیں ہوگا اگر مالک بغیر شرعی عذر کے اس معاملہ کو ختم کرنا چاہے تو کرایہ دار اپنے حق سے دستبردار ہونے کے لئے عوض کا مطالبہ کرسکتا ہے۔ اور یہ عوض پیشگی دی گئی رقم کے علاوہ ہوگا۔

لما فی ’’الفقہ الاسلامی وادلتہ‘‘:

اذا اتفق المالک والمستأجر علی ان یدفع المستاجر للمالک مبلغا مقطوعا زائدا عن الاجرۃ الدوریۃ وھو ما یسمی فی بعض البلاد خلوا فلا مانع شرعا من دفع ھذا المبلغ المقطوع علی ان یعد جزء اً من اجرۃ المدۃ المتفق علیھا الخ ۔ (۷؍۵۱۳۹ : رشیدیہ)

وفی ’’بحوث فی قضایا فقھیۃ معاصرۃ‘‘:

ومن ھذا النوع ماراج فی کثیر من البلدان من بیع الخلو ۔ وتسمی خلوا او جلسۃ وپگڑی وسلامی فی دیارنا واصل الحکم فی ھذا الخلو عدم الجواز لکونہ رشوۃ او عوضا عن حق مجرد ۔ ونعم یمکن تعدیل النظام الرائج للخلو الی ما یلی ۱ ۔ یجوز للموجر ان یاخذ من المستاجر مقدارا مقطوعا من المال یعتبر کاجرۃ مقدمۃ لسنین معلومۃ ۲ ۔ اذا کانت الاجارۃ لمدۃ معلومۃ استحق المستاجر البقاء علیھا الی تلک المدۃ ۳ ۔ ولا یجوز للموجر ان یفسخھا الا بعذر شرعی (۱؍۱۱۴)