+(00) 123-345-11

مغرب کی نماز کا وقت مستحب کیا ہے؟ اور مکروہ وقت کب شروع ہوتا ہے اس طرح مغرب کی اذان واقامت میں کس قدر وقفہ کرنے کی گنجائش ہے۔

اصل سوال کے جواب سے پہلے تمہید کے طور پر چند باتوں کا معلوم ہونا مناسب ہے۔

۱۔مغرب کی نماز کو غروب ہونے کے بعد بالاتفاق جلدی پڑھنا مستحب ہے۔

۲۔’’اشتباک النجوم‘‘ تک مؤخر کرنا مکروہ ہے۔

۳۔’’ظہور النجوم‘‘ یعنی جب ایک دو ستارے ظاہر ہو جائیں اس وقت تک مؤخر کرنا مکروہ تنزیہی ہے۔

۴۔اگر کوئی عذر ہو جیسے سفر کی حالت ہو یا کھانا تیار ہو اور بھوک کی شدت ہو تب بھی مغرب کی نماز کو مؤخر کرنا جائز ہے۔

۵۔ رمضان المبارک میں افطار کے وقت چونکہ کھانے کی طرف اشتیاق اور بھوک کی شدت ہوتی ہے اس لئے رمضان المبارک میں بھی نماز مغرب کو مؤخر کرنے کی گنجائش ہے۔ ’’امدادالاحکام‘‘ میں ہے۔

’’رمضان میں افطار کی وجہ سے دیر ہونے میں مضائقہ نہیں ہے‘‘۔

مفتی رشید احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔

’’رمضان میں اگر بھوک لگی ہو اور کھانا تیار ہو تو پندرہ بیس منٹ تک تاخیر میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ اس لئے کہ یہ تاخیر زیادہ سے زیادہ مکروہ تنزیہی ہے اور بھوک کی حالت میں کھانے کی موجودگی میں نماز پڑھنا مکروہ تحریمی ہے۔ لہٰذا کھانے سے فارغ ہو کر اطمینان و فراغ قلب کے ساتھ نماز پڑھنی چاہیے۔ احسن الفتاویٰ (۲؍۱۳۸)

۶۔رمضان کے علاوہ عام دنوں میں نماز مغرب کو اتنا مؤخر کرنا جس میں دو رکعت نفل ادا کئے جا سکتے ہوں جس کی مقدار دو سے تین منٹ ہے یہ مکروہ تنزیہی میں داخل ہے یا نہیں اس میں دو قول ہیں۔ بعض فقہاء کی رائے میں یہ مکروہ تنزیہی میں داخل ہے۔ جبکہ علامہ شامی ؒ نے اتنی تاخیر کو مباح قرار دیا ہے۔ یعنی مستحب تو یہ ہے کہ مغرب کی نماز میں اتنی تاخیر نہ کی جائے البتہ اگر کسی نے اتنی دیر کی تو مکروہ نہیں بلکہ مباح ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ اس میں اختلاف ہے کہ مغرب کا وقت مکروہ کب شروع ہوتا ہے۔ بعض کے نزدیک اذان کے بعد دور کعت کے برابر وقت گزرنے سے شروع ہو جاتا ہے اور بعض کے نزدیک ’’ظہور النجوم‘‘ یعنی جب ستارے ظاہر ہو جائیں تو مکروہ وقت شروع ہوتا ہے۔ دوسرے قول میں چونکہ وسعت ہے اور لوگوں کے لئے آسانی ہے اسی کی طرف علامہ شامی ؒ کا میلان ہے۔ نیز ’’صاحب بدائع الصنائع‘‘ کے انداز سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ مغرب کی نماز میں کچھ تاخیر کرنا مباح ہے۔ انہوں نے مغرب کی نماز کو جلدی پڑھنے کی وجہ یہ بیان فرمائی ہے کہ مغرب میں تعجیل کثرت جماعت کا سبب ہے، کیونکہ مغرب کی نماز کے بعد لوگ کھانے اور آرام میں مصروف ہو جاتے ہیں اس لئے مغرب کی نماز کو جلدی پڑھنا افضل ہے۔ اور تاخیر کرنا نامناسب ہے لیکن موجودہ زمانہ میں تکثیر جماعت کچھ نہ کچھ تاخیر کرنے میں ہے اس لئے مغرب کی نماز میں تاخیر کرنے کی گنجائش ہے۔ (۱۲۶؍۱)

علامہ ظفر احمد عثمانی ؒ دونوں قول ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں۔

والثانی اقرب واوسع وظاہر مافی رد المختار یدل ان العلامۃ شامی مال الیہ۔

اس لئے مذکورہ بالا اقوال کی روشنی میں رمضان کے علاوہ عام دنوں میں اذان واقامت میں دو رکعت کی بقدر تاخیر کرنا جس کی مقدار دو تین منٹ ہے مباح اور جائز ہے، مفتی رشید احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ’’نماز مغرب میں اتنی تاخیر کرنا جس میں دو رکعت ادا کی جاسکیں بالاتفاق بلا کراہت جائز ہے۔ اس سے زیادہ تاخیر میں اختلاف ہے۔ عندالبعض بلا کراہت جائز ہے۔ اور بعض کے نزدیک مکروہ تنزیہی ہے۔ البتہ اتنی تاخیر کہ ستارے بکثرت چمکنے لگیں بالاتفاق مکروہ تحریمی ہے‘‘۔

لما فی ’’شرح المسلم للنویؒ‘‘:

ان المغرب تعجل عند غروب الشمس وھذا مجمع علیہ۔ (۱؍۲۲۸)

وفی ’’معارف السنن‘‘:

لا خلاف فی استحباب تعجیل المغرب (۲؍۷۳)

وفی ’’بذل المجھود‘‘:

وتاخیرھا الی اشتباک النجوم مکروہ (۱؍۲۴۲)

وفی ’’فتح القدیر‘‘:

وما روی الاصحاب عن ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنھا انہ اخرھا حتی بدأ نجم فاعتق رقبۃ یقتضی ان ذلک القلیل الذی لا یتعلق بہ کراھۃ ھو ماقبل ظھور النجم (۱؍۲۰۰)

وفی ’’معارف السنن‘‘:

وکرہ تاخیر المغرب واستثنیٰ فی الدر المختار التاخیر بعذر السفر وکونہ علی الأکل (۲؍۷۳)

وفی ’’کتاب الفقہ علی المذاھب الاربعۃ‘‘:

الافضل أیضا تاخیر الصلاۃ لتناول الطعام یشتاقہ (۱؍۱۸۸)

وفی ’’الشامیۃ‘‘:

(وتاخیر قدر رکعتین‘‘ ان ما فی الفتیۃ من استناد التاخیر القلیل محمول علی ما دون الرکعتین وان الزائد علی القلیل الی اشتباک النجوم مکروہ تنزیہا وما بعدہ تحریما، قال فی شرح المنیہ والذی اقتضتہ الاخبار کراھۃ التاخیر الی ظھور النجم وما قبلہ سکوت عندہ فھو علی الاباحۃ الخ (۱؍۳۷۰)

وفی ’’البحر الرائق‘‘:

(وندب تعجیلھا) ذکرہ الشارح وفیہ بحث او مقتضاہ الندب لا الکراھۃ لجواز الاباحۃ (۱؍۴۳۱)