+(00) 123-345-11

سوال یہ ہے کہ محمد عمران اور سلیم دو دوست ہیں دونوں آپس میں مل کر گاڑی خریدتے ہیں گاڑی عمران دیکھتا ہے اور گاڑی کے مالک سے قیمت طے کرتا ہے اور اپنے دوست سلیم کو اس سے آگاہ کرتا ہے سلیم اس پر متفق ہوتا ہے۔ عمران ایک تیسرے آدمی کو گاڑی نمبر دیتا ہے کہ یہ گاڑی چیک کروادیں وہ یہ کہتا ہے میں نے چیک کروائی ہے سب ٹھیک ہے گاڑی ٹھیک ہے سب ذمہ داری مجھ پر ہے۔ گاڑی کا مالک گاڑی تین لاکھ کے عوض عمران اور سلیم کے حوالے کردیتا ہے عمران اور سلیم ایک لاکھ پچیس ہزار فی کس ادا کرتے ہیں یعنی اڑھائی لاکھ ادا کرتے ہیں اور بقیہ رقم 50000بعد میں ادا کرنا ہوتی ہے۔ گاڑی دونوں کے پاس کم از کم 10دن رہتی ہے کہ اچانک عمران کے گھر پولیس آتی ہے او رپکڑ لیتی ہے اور سلیم کے گھر پولیس اس کو پکڑنے جاتی ہے تو وہ یہ کہتا ہے کہ مجھے تو یہ گاڑی عمران نے لاکردی ہے وہ کہتے ہیں ہمارے ساتھ چلو یہ گاڑی چوری کی ہے سلیم کہتا ہے تم گاڑی لے جائو ہمیں عزت عزیز ہے۔ فوری طور پر پولیس عمران کو قصور وار سمجھتے ہوئے لے جاتی ہے اس دوران تفتیش کے وقت یہ بات واضح ہوتی ہے اور پولیس والے یہ رپورٹ لکھتے ہیں کہ عمران بے قصور ہے اور لاعلمی میں انہوں نے گاڑی خریدی ہے اور عمران کو چار دن کے بعد رہا کر دیتے ہیںاور گاڑی اپنے قبضے میں لے لیتے ہیں۔ عمران اور سلیم کی ملاقات کے بعد سلیم عمران سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ یہ گاڑی تمہاری ذمہ داری پر خریدی تھی اور تم نے ذمہ داری اٹھائی تھی اب میں اس کا ذمہ دار نہیں لہٰذا مجھے اپنی رقم ایک لاکھ پچیس ہزار روپے دو ، سلیم نے عمران کے چالیس ہزار دینے ہوتے ہیں وہ کہتا ہے کہ چالیس ہزار میں نے تمہارا قرضہ دینا تھا اب میں وہ نہیں دوں گا اور بقایا 85000میرے ادا کرو۔واضح ہو کہ سلیم اس بارے میں عمران کو قصور وار تصور کرتا ہے جبکہ عمران بار بار یہ کہتا ہے کہ میرے ساتھ زیادتی نہ کرو۔ مگر اس کا تقاضا ہے کہ میری رقم ادا کرو۔ کیا شرعاً عمران کو سلیم کی بقیہ رقم ادا کرنی چاہیے۔ مساوی یا نصف یا اس نقصان میں دونوں برابر کے شریک ہیں؟برائے مہربانی قرآن وسنت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔

ایک شریک کے لئے دوسرے شریک کے نفع یا نقصان کا ذمہ دار بننا جائز نہیں ہے۔ البتہ کفیل بالدرک یعنی مشترکہ چیز میں مستحق نکل آنے کی صورت میں ذمہ داری قبول کرنا جائز ہے۔ لہٰذا صورت مسئولہ میں عمران نے گاڑی کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ اس لئے خریداری کے بعد چوری کی نکل آنے کی صورت میں ساری ذمہ داری عمران پر عائد ہوتی ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ سلیم کی رقم واپس کرے اور اپنے نقصان کو گاڑی فروخت کرنے والے سے پورا کرے۔

لما فی ’’الدرر الحکام‘‘:

واما الثانیۃ ای الکفالۃ بالمال فتصح ولو جھل المکفول بہ اذا صح دینا وھذا یسمی ضمان الدرک وھو ضمان الاستحقاق (۷؍۳۷۴)

وفی ’’فتح القدیر‘‘:

بخلاف الکفالۃ بالدرک فانھا جائزۃ۔والفرق ان الرھن للاستیفاء ولا استیفاء قبل الوجوب لان ضمان الدرک ھو الضمان عند استحقاق المبیع فلا یصح مضافا الی حال وجوب الدین لان استیفاء معاوضۃ واضافۃ التملیک الی المستقبل لا تجوز اما الکفالۃ فھی الالتزام المطالبۃ ولا التزام اصل الدین۔(۱؍۵۲)

وفیہ ایضًا:

ضمان الخسران باطل لان الضمان لا یکون الا بمضمون والخسران غیر مضمون علی احد (۱۶؍۲۱۹)

وفی ’’الموسوعۃ الفقھیۃ‘‘:

من شروط صحۃ ضمان الدرک ان یکون المضمون دینا صحیحا۔ (۲۹؍۳۰)