+(00) 123-345-11

دعا مانگنے کے آداب کیا ہیں؟ دعا کس طرح مانگنی چاہیے اور کیا دعا مانگنی چاہیے اور کیا دعا کرتے وقت اللہ تعالیٰ کو اپنے نیک کاموں کا واسطہ دینا جائز ہے؟

دُعا انتہائی خشوع و خضوع اور یکسوئی سے مانگنی چاہئے ارشاد باری تعالیٰ ہے:

اُدْعُوْ رَبَّکُمْ تَضَرُّعًا وَّخُفْیَۃً

اپنے رب کو گڑگڑا کر اور تنہائی میں پکارو،

اور دوسرے مقام پر ہے:

وَاذْکُرْ رَ بَّکَ فِیْ نَفْسِکَ تَضَرُّعاً وخِیْفَۃً

’’اپنے رب کو دل میں یاد کرو عاجزی کے ساتھ اور ڈرتے ہوئے۔

حدیث مبارک میں ہے کہ :

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ غافل دل کی دُعا کو قبول نہیں فرماتے۔

ایک حدیث میں ہے :

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کو فرمایا: تم اپنے کھانے کو پاکیزہ کرو تم مستجاب الدعوات بن جائو گے۔ دُعا کے مزید آداب بھی ہیں جو مختلف احادیث میں منقول ہیں جنکی تفصیل بڑی کتابوں میں دیکھی جا سکتی ہے۔

اللہ تعالیٰ سے اپنی ہر جائز حاجت اور ضرورت کو مانگ سکتے ہیں، اور بہتر یہ ہے کہ ان الفاظ کے ساتھ دُعا کی جائے جو تمام حاجات اور ضروریات پر مشتمل ہوں حضور صلی اللہ علیہ وسلم دُعائوں میں سے ایسی دُعا کو منتخب فرماتے تھے جو جامع کلمات پر مشتمل ہو (کما فی الحدیث) مثلاً اس قسم کی دُعائیں:

رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَۃ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ۔

اے ہمارے پروردگار ہمیں دُنیا میں بھی خیر عطا فرما اور آخرت میں بھی خیر عطا فرما اور ہمیں عذاب دوزخ سے محفوظ فرما۔

دُعا میں اپنے کسی نیک کام کا واسطہ دینا جائز ہے۔ مگر اس بات کو خیال میں رکھنا لازم ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے کسی واسطہ سے مجبور نہیں ہوتے اور نہ ہی واسطہ دینا دُعاء کی قبولیت کے لیے ضروری ہے اللہ تعالیٰ اس کے بغیر بھی دُعاء کو قبول فرما سکتے ہیں۔