+(00) 123-345-11

میوزک اسلام میں حرام کیوں ہے اس کا شرعی مسئلہ کیا ہے اور یہ کہ میوزک سے مراد موجودہ زمانے کا میوزک ہے؟ اس کے علاوہ کیا حضرت دائود علیہ السلام موسیقی کے شوقین تھے؟مفتی صاحب میں وہ منطق جاننا چاہتا ہوں جس بنا پر موسیقی کو حرام قرار دیا گیا ہے؟

موسیقی قرآن و حدیث کی روشنی میں ناجائز ہے اور فقہاء امت کے چاروں مکاتب فکر اس مسئلے کے عدم جواز پر متفق ہیں بے شمار آیات قرآنیہ و احادیث نبویہ میں اس کی ممانعت موجود ہے ذیل میں ان میں سے کچھ کو ذکر کیا جاتا ہے۔

ومن الناس من یشتری لھو الحدیث لیضل عن سبیل اللہ بغیر علم ویتخذھا ھزواً اولئک لھم عذاب مھین۔ (سورۃ لقمان آیت ۶)

(ترجمہ) ’’بعض لوگ ایسے ہیں جو ان باتوں کے خریدار ہیں جو اللہ سے غافل کرنے والی ہیں تاکہ بے سمجھے بوجھے اللہ کی راہ سے بھٹکائیں اور اس راہ کی ہنسی اڑائیں ایسے لوگوں کے لیے ذلت کا عذاب ہے‘‘۔

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے لھوالحدیث کی تفسیر میں فرمایا:

ھو واللہ الغناء بخدا اس سے مراد گانا ہی ہے۔

’’عن عبدالرحمان ابن غنم قال حدثنی ابوعامر او ابو مالک الاشعری رضی اللہ عنہ انہ سمع النبی صلی اللہ علیہ وسلم یقول لیکونن من امتی اقوام یستحلوں الحر والحریر والخمر والمعازف‘‘۔ (بخاری، کتاب الاشربہ)

(ترجمہ) حضرت عبدالرحمان ابن غنم سے روایت ہے کہ مجھے ابو عامر یا ابو مالک اشعری نے بتایا کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا کہ عنقریب میری امت میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو زنا، ریشم، شراب اور گانے بجانے کے آلات کو حلال سمجھیں گے اور ایک روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو زمین میں دھنسا دے گا اور ان میں سے بعض کو خنزیر اور بندر بنا دے گا۔

موجودہ دور میں جو میوزک استعمال ہو رہا ہے یہی ممنوع اور ناجائز میوزک ہے حضرت دائود علیہ السلام قطعاً میوزک کے شوقین نہیں تھے ان کی طرف اس بات کی نیت کرنا افتراء اور سخت گناہ ہے لہٰذا اس سے احتراز لازم ہے نیز ایک بندے کے لیے خدا تعالیٰ کی طرف سے حرمت کا حکم آجانا ہی کافی ہے اس کی منطق اور حکمت سمجھ میں آئے یا نہ آئے البتہ بظاہر ایک حکمت اس حدیث سے جس میں یہ فرمایا گیا کہ غناء دل میں نفاق پیدا کرتا ہے یہ سمجھ میں آتی ہے کہ گانے اور موسیقی کی وجہ سے اخلاص اور حقیقت پسندی ختم ہو کر نفاق اور دکھلاوا پیدا ہوتا ہے اس لیے اس سے بچنا ضروری ہے۔"