+(00) 123-345-11

صحیح بخاری شریف کی حدیث جس میں تین چیزوں یعنی گھر، گھوڑا اور عورت کو منحوس قرار دیا گیا ہے یہاں منحوس کا کیا مطلب ہے اور اس کا اندازہ کیسے لگایا جائے کہ کون سا گھر، عورت اور گھوڑا منحوس ہو سکتے ہیں؟

شریعت مطہرہ میں نحوست کا کوئی تصور نہیں ہے۔ زمانہ جاہلیت میں لوگ مختلف چیزوں کو منحوس سمجھتے تھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بھرپور تردید فرمائی۔ بخاری شریف کی جو حدیث مبارک آپ نے ذکر فرمائی ہے اس کے بعد جو روایت مذکور ہے وہ تفصیلی ہے اس میں یہ ارشاد ہے ’’اگر کسی چیز میں نحوست ہوتی تو گھر میں اور عورت میں اور گھوڑے میں ہوتی‘‘۔

ان کان الشوم فی شیٔی ففی الدار والمرأۃ والفرس (حاشیہ بخاری جلد ۲، صفحہ ۷۶۳)

اس کی تشریح میں محشی نے تحریر فرمایا ہے ’’اگر نحوست کا وجود کسی چیز میں ہوتا تو وہ ان تین چیزوں میں ہوتی اس لیے کہ یہ چیزیں اس کو زیادہ قبول کرنے والی ہیں لیکن ان میں نحوست کا وجود نہیں ہے لہٰذا نحوست سرے سے ہے ہی نہیں‘‘۔

والمعنی ان الشوم لوکان لہ وجود فی شیٔی لکان فی ھذہ الاشیاء فانھا اقبل الاشیاء لہ لکن لاوجود لہ فیھا فلا وجود لہ اصلا۔(حاشیہ بخاری جلد ۲، صفحہ ۷۶۳)

آپ کی ذکر کردہ روایت میں نحوست سے مراد وہ طبعی ناپسندیدگی ہے جس کا سبب ان اشیاء میں شریعت یا طبیعت کی مخالفت ہے۔ پس گھر کی نحوست سے مراد اس کا تنگ ہونا اور اس کے پڑوس کا برا ہونا ہے اور عورت کی نحوست سے مراد اس کا بانجھ ہونا اور زبان درازہونا اور گھوڑے کی نحوست سے مراد یہ ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے اس پر سوار ہو کر بندہ جہاد نہ کرے۔ بہرحال یہاں مروجہ نحوست مراد نہیں ہے بلکہ مراد ان چیزوں کا شریعت یا طبیعت کی رُوسے اس آدمی کے موافق نہ ہونا ہے۔

فعلی ھذا الشوم فی الاحادیث المستشھد بھا محمول علی الکراھۃ التی سببھا مافی الاشیاء من مخالفۃ الشرع او الطبع کما قیل شوم الدار ضیقھا وسوء جیرانھا وشوم المرأۃ عدم ولادتھا وسلاطۃ لسانھا ونحوھما وشوم الفرس ان لایغزی علیھا ...... فالشوم فیھا عدم موافقتھا لہ شرعاً او طبعا۔ (حاشیہ بخاری جلد ۲، صفحہ ۷۶۳)"