+(00) 123-345-11

کیا اسقاط حمل اسلام میں جائز ہے؟

بغیر کسی شرعی عذر کے اسقاط حمل شرعا جائز نہیں ہے البتہ اگر عذر شرعی ہو مثلاً

(۱) عورت اتنی کمزور ہو کہ بار بار حمل کا تحمل نہیں کر سکتی۔

(۲) پہلے سے موجود بچے کی صحت خراب ہونے کا شدید خطرہ ہے۔

(۳) حمل کی وجہ سے عورت کا دودھ خشک ہو گیا اور دوسرے ذرائع سے پہلے بچے کی پرورش کا انتظام ناممکن یا مشکل ہو۔

(۴) کوئی دیندار حاذق طبیب عورت کا معائنہ کر کے یہ کہہ دے کہ اگر حمل باقی رہا تو عورت کی جان یا کوئی عضو ضائع ہونے کا شدید خطرہ ہے تو ان اعذار کی وجہ سے چار ماہ سے قبل حمل کو ساقط کروانا جائز ہے چار ماہ یا اس سے زائد کا حمل کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے۔

فی الشامی (قولہ جاز لعذر الخ) کالمر ضعۃ اذا ظہر بھا الحبل وانقطع لبنھا ولیس لابی الصبی مایستأجر بہ الظئر ویخاف ھلاک الو لد قالوا ایباح لھا ان تعالج فی استنزال الدم مادام الحمل مضغۃ اوعلقۃ ولم یخلق لہ عضو وقدروا تلک المرۃ بمائۃ وعشرین یوما وجاز لانہ لیس بآدمی وفیہ صیانۃ الأدمی خانیۃ۔

(ردالمختار ۶/۴۲۹)"