+(00) 123-345-11

براہ مہربانی قرآن اور حدیث کی روشنی میں جواب دیں میں لائف اسٹیٹ کمپنی میں کمیشن ایجنٹ ہوں میں ایک عرصہ دراز سے یہ کام کر رہا ہوں مجھے جو تنخواہ ملتی ہے وہ کمیشن کی مد میں سے ملتی ہے۔ پوچھنا یہ چاہتا ہوں کہ میرا اسٹیٹ لائف کی کمپنی میں کام کرنا کیسا ہے اور میری تنخواہ حلال ہو گی یا حرام ہوگی؟

اسٹیٹ لائف کمپنی کا کاروبار سود پر مبنی ہے کیونکہ بیمہ کروانے والے لوگ کمپنی کو جو رقم دیتے ہیں وہ قرض ہوتا ہے پھر کمپنی اس قرض پر زائد رقم ادا کرتی ہے جو سود ہے اور اس کو منافع سے تعبیر کیا جاتا ہے اور بسا اوقات یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ زائد رقم اس تلف شدہ چیز کا عوض ہے حالانکہ درحقیقت یہ اس ماہانہ یا سالانہ دی جانے والے رقم کا معاوضہ ہے کیونکہ یہ بات ظاہر ہے کہ کمپنی کو کسی کے مال کے محض ضائع ہونے سے کیا نفع و نقصان ہو سکتا ہے؟ چنانچہ یہ بات ثابت ہوئی کہ کمپنی حاصل ہونے والے قرض پر زائد رقم ادا کرتی ہے جو کھلم کھلا سود ہے اسی طرح بیمہ کاروبار مشروط بالشرط ہوتا ہے اور قرض مشروط حرام ہے۔

اب جو کمیشن ایجنٹ (دلال) اس کمپنی میں ملازمت اختیار کر کے لوگوں کو اس سودی معاملے کے لیے تیار کرتے ہیں ان کی تنخو اہ کمپنی اسی سودی معاملات سے حاصل ہونے والی آمدنی سے ادا کرتی ہے نیز یہ کمیشن ایجنٹ ایک حرام اور ناجائز کام میں معاون و مددگار بنتے ہیں۔ حالانکہ گناہ کے کام میں معاونت کرنا خود ناجائز ہے۔

لہٰذا اسٹیٹ لائف کمپنی کا کاروبار حرام و ناجائز ہے اسی طرح اس کمپنی میں ملازمت کرنا اور اس ملازمت کی تنخواہ لینا بھی حرام و ناجائز ہے۔

(۱) یاایھا الذین امنوا لا تاکلو الربوا اضعافاً مضٰعفہ ...... الخ۔

(الایہ) (پارہ نمبر ۴ ، رکوع نمبر ۵)

(۲) وتعاونوا علی البر والتقوی ولا تعانوا علی الاثم والعدوان

(الایہ پارہ ۶ المائدہ)

(۳) ’’وحرم الربوا‘‘ والمعنی ان اللہ حرم الزیادۃ فی القرض علی القدر المرفوع۔

(مظہری ص ۲۹۹ ج ۱)

(۴) الذہب بالذہب والفضۃ بالفضۃ والبر بالبر والشعیر بالشعیر والتمر بالتمر والملح بالملح مثلا بمثل یدا بیدا فمن زاد او استزاد مقدار بی الٰاخذ والمعطی فیہ سواء (رواہ مسلم، مشکوۃ ۱/۲۴۴)

(۵) کل قرض جرنفعا فھو ربوا۔ (شامی ۵/۲۴۴)

(۶) کل قرض جر نفعا حرام ای اذا کان مشروطا کما علم ممانقلہ عن البحر۔ (ایضاً ۵/۱۶۹)

(۷) ’’قال الامام طاہر بن عبدالرشید البخاریؒ: وفی کفالۃ الاصل فی الباب الاخیر القرض بالشرط حرام والشرط لیس بلازم‘‘۔

(خلاصتہ الفتاوی ۳/۵۴)"