+(00) 123-345-11

میں ایک انسان کو جانتا ہوں جو علمائِ کرام کی اہمیت سے واقف ہونے کے باوجود حضرات علماء کرام کے خلاف لب کشائی کرتے ہیں اور اکثر اوقات تو انہیں (علماء کرام کو) برے القابات سے نوازتے ہیں۔ معدودے چند افراد کی وجہ سے وہ تمام حضرات علماء کرام اور مشائخ عظام، عالمی مجلس تحفظ ختم نبوۃ اور مجلس احرار اسلام سمیت اہل حق کی سربراہی میں چلنے والی تمام جماعتوں کے قائدین کے خلاف لب کشائی کرتے ہیں۔ آجکل امام کعبہ حضرۃ الشیخ عبدالرحمن السدیس آئے ہوئے ہیں۔ اور ان کے بارے میں بھی انہوں نے نازیبا الفاظ کہے ہیں۔

میرے آپ سے سوالات یہ ہیں کہ:

(۱) ایسے شخص کے متعلق احکامِ شریعت کیا ہیں؟

(۲) ایسے شخص کی زندگی پر اس ہرزہ سرائی کا کیا اثر پڑتا ہے اور آخرت میں اس عمل بد کا کیا انجام بھگتنا پڑے گا؟

(۳) کیا ایسے شخص کو لب کشائی علماء کے خلاف کرتے رہنا چاہیے؟

(۴) کیا ایسے شخص کے کاروبار میں برکت رہتی ہے؟

دین اسلام کی بقاء کا راز علم دین کے بقاء میں مضمر ہے چنانچہ دشمنانِ اسلام روزِ اول سے ہی علم دین کے خلاف ہیں اور حضرات علماء کرام اور اہل علم چونکہ اس راستے میں رکاوٹ ہیں لہٰذا ایسے عناصر کی ہرزہ سرائیاں اہل علم کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہیں۔

جہاں تک ایک مسلمان کا تعلق ہے تو یہ بات اس کی شان کے خلاف ہے کہ وہ اہل علم دین کے خلاف ایک لفظ بھی زبان سے نکالے کہ جن اہل علم کی فضیلت قرآن و حدیث میں جگہ جگہ بیان ہوئی ہے مثلاً:

(۱) انما یخشی اللہ من عبادہ العلماء (فاطر ۲)

اللہ کے بندوں میں سے علماء ہی اللہ سے ڈرتے ہیں۔

(۲) یرفع اللہ الذین امنوا منکم والذین اوتوا العلم درجات (المجادلہ ۱۱)

اللہ تعالیٰ تم مین سے مومنوں اور جن کو علم ہوا ہے درجات بلند کرے گا۔

(۳) قل ھل یستوی الذین یعلمون والذین لا یعلمون (الزمر ۹)

آپ فرما دیجیے بھلا علم والے اور جہل والے بھی برابر کہیں ہوئے ہیں؟

اسی طرح ذخیرہ احادیث بھی اس طرح کی احادیث سے بھر اہوا ہے۔

(۴) حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی الہ علیہ وسلم : اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کرنا چاہتے ہیں اسے دین کی سوجھ بوجھ عطا فرما دیتے ہیں۔ (رواہ البخاری و مسلم)

حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: دنیا ملعون ہے اور جو کچھ دنیا میں ہے وہ بھی ملعون ہے۔ مگر اللہ کا ذکر اس کا ذاکر (ذکر کرنے والا)، عالم اور طالب علم اس سے مستثنیٰ ہیں۔ (رواہ الترمذی، ۲۳۲۳ وقال حدیث حسن)

(۶) حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عالم کی فضیلت عابد (غیر عالم) پر ایسی ہے جیسے کہ میری تمہارے عام مسلمان پر۔ (ایضاً)

(۷) عالم کے لیے آسمانوں اور زمین کی مخلوق حتی کہ مچھلیاں پانی میں دعائے مغفرت کرتی ہیں۔

عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسی چاند کی تمام ستاروں پر اور علماء انبیاء کے وارث ہیں۔

(رواہ الترمذی ۲۶۸۳، و ابو دائود ۳۶۴۱)

یہاں یہ بات ملحوظ خاطر رہنی چاہیے کہ ہر دور میں علماء حق کے ساتھ ساتھ دنیا میں علماء سو اور علماء باطل بھی رہے ہیں۔ یہ علماء سو دین کی حفاظت کے بجائے بے دینی پھیلانے کا ذریعہ بنتے ہیں اور ان کا بہترین مشغلہ حکومت وقت کی ہر ناجائز بات اور ہر ظلم و زیادتی کو عین اسلام اور دین قرار دینا ہوتا ہے اس لیے اگر کوئی شخص ایسے علماء سو کے خلاف کوئی ایسی بات کرتا ہے کہ جس سے مقصود محض دل کی بھڑاس نکالنا نہیں ہے بلکہ لوگوں کو اس کے فتنہ سے بچانا مقصود ہو تو ایسی بات نہ صرف جائز بلکہ مستحسن ہے۔

کہیں اگر کوئی علماء حقہ یا مطلقاً علماء اور اہل علم و دین کو برا بھلا کہتا ہے کہ سب کے سب دیندار اور اہل علم ایسے ایسے ہیں تو اس کا یہ علم گناہ کے ذمرے میں آکر ناجائز ہو جاتا ہے اس عمل سے توبہ و استغفار لازم ہے ورنہ ایسے شخص کے حق میں کفرکا اندیشہ ہے۔

من ابغض عالما من غیر سبب ظاہر خیف علیہ الکفر‘‘۔

(خلاصۃ الفتاویٰ ۴/۳۸۸ کتاب الفاط الکفر)

یخاف علیہ الکفر کذا فی الخلاصۃ اذا شتم عالما اوفقیھا غیر سبب۔

(ھندیۃ ۲/۲۷۰)

ومنھا مایتعلق بالعلم والعلماء سباب المسلم فسوق وقتالہ کفر۔

(رواہ الترمذی ۲/۱۹ باب ماجاء فی الشتم)"