+(00) 123-345-11

کیا فرماتے ہیں علمائِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کوئی شخص یہ کہے کہ کالا کپڑا پہننا حرام ہے اور اس کے پہننے والے نے حرام کا ارتکاب کیا ہے اور پھر یہاں تک کہہ دے کہ میں اسے قیامت تک حرام کہوں گا برائے مہربانی قرآن و حدیث کی روشنی میں اس مسئلہ کا شرعی طور پر وضاحت فرما دے کہ کیا کالا کپڑا واقعی حرام ہے؟ اور اس کو حرام کہنا درست ہے؟اور اس کو حرام کہنے والے شخص کے بارے میں کیا حکم ہے؟

کالے رنگ کی چادر اور عمامہ وغیرہ کا استعمال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، لیکن مکمل طور پر سیاہ رنگ کا لباس پہننا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں، اور کسی حدیث میں اس کی ممانعت بھی منقول نہیں، لہٰذا سیاہ کپڑوں کا استعمال فی نفسہ جائز ہے۔ تاہم چونکہ سیاہ رنگ کا لباس محرم کے مہینہ میں پہننا روافض کا شعار بن چکا ہے، اس وجہ سے ان ایام میں اس لباس کو ترک کرنا چاہیے، تاکہ روافض کے ساتھ مشابہت نہ ہوگا، لیکن جہاں روافض کے ساتھ مشابہت کا اندیشہ نہ ہو تو ایسا لباس پہننا جائز ہوگا۔

بہرحال، کالا کپڑا پہننے کو علی الاطلاق حرام کہنا کسی طرح درست نہیں بلکہ اس میں مندرجہ بالا تفصیل کو مدنظر رکھنا ضروری ہے جو شخص کالا کپڑا پہننے کو حرام کہتا ہے اس کی رائے غلط ہے، اسے اعتدال والے طریقہ کو اختیار کر کے اپنی رائے سے رجوع کرنا چاہیے۔

عن عائشۃ رضی اللہ عنھا انھا قالت خرج النبی صلی اللہ علیہ وسلم وعلیہ مرط مرحل من شعراء سود (رواہ مسلم ۴/۱۶۴۶ الحلبی)

عن جابر رضی اللہ عنہ قال رأیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دخل یوم فتح مکۃ وعلیہ عمامۃ سوداء (رواہ مسلم ۲/۹۹۰)

(وکرہ لبس المعصفر والمز عفر الاحمر والاصفر للرجال) مفادہ انہ لایکرہ للنساء (ولا بأس بسائرا لالوان) (درمختار ۵/۲۵۲ رشیدیہ)

ومکروہ وھو اللبس للمتکبر ویستحب الابیض وکذا الاسود لانہ شعار بنی العباس ودخل علیہ الصلاۃ والسلام مکۃ وعلی رأسہ عمامۃ سودائ۔

(شامیۃ ۵/۲۴۸ رشیدیۃ)"