+(00) 123-345-11

ہم لوگ جو شعبان المعظم کی پندرہویں رات میں عبادت کرتے ہیں اس کا کیا ثبوت ہے؟ آیا یہ جائز ہے؟ اور ان اوقات میں لوگ طرح طرح کے کام کرتے ہیں مثلاً حلوہ پکانا، چراغاں کرنا، آتش بازی کرنا ان کاموں کا کیا حکم ہے؟

شعبان المعظم کی پندرہویں رات بابرکت راتوں میں سے ہے احادیث مبارکہ میں اس کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رات کے متعلق بیان فرمایا ہے کہ:

’’اللہ عزو جل نصف شعبان کی رات (پندرہویں رات) کو آسمانِ دنیا پر جلوہ افروز ہوتے ہیں اور قبیلہ کلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ انسانوں کی مغفرت فرماتے ہیں‘‘۔

(رواہ ابن ابی شیبہ والترمذی و ابن ماجہ والبہیقی)

ایک دوسرے موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رات کے متعلق فرمایا:

’’اس رات میں قیام کرو اور اس کے دن میں روزہ رکھو اللہ رب العزت غروبِ شمس کے وقت آسمانِ دنیا پر نزول فرماتے ہیں اور ارشاد فرماتے ہیں: ’’ہے کوئی مغفرت طلب کرنے والا تاکہ میں اسے معاف کروں، ہے کوئی رزق کا متلاشی تاکہ میں اسے رزق عطا کروں، ہے کوئی مصیبت زدہ میں اس کی مصیبت کو دور کروں ........ چنانچہ طلوع فجر تک یہی صدا لگتی رہتی ہے‘‘۔

(رواہ ابن ماجہ والبیہقی)

اسی طرح احادیث مبارکہ میں منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس رات قبرستان تشریف لے گئے اور مردوں کے لیے بخشش کی دُعا مانگی۔

ان احادیث سے معلوم ہوا کہ اس رات میں عبادت کا اہتمام کرنا اور اس کے دن میں روزہ رکھنا ثابت ہے۔

’’المرغوبات من الصیام انواع اولھا صوم المحرم والثانی صوم رجب والثالث صوم شعبان‘‘۔ (ھندیہ ۱/۱۳۰)

البتہ اس رات اور دن میں جتنے غیر شرعی طریقے اور رسومات مثلاً آتش بازی، حلوہ پکانا، چراغاں کرنا وغیرہ رائج ہیں ان سے بچنا لازم ہے۔"