+(00) 123-345-11

سو ال یہ ہے کہ ایک آدمی نے دوسرے شخص کو یہ کہا کہ تم میرے سے رقم لو اور کاروبار کرو جو نفع ہوگا وہ خاص متعین تناسب سے ہم تقسیم کر لیں گے، رقم دینے والے نے رقم دینے کی بجائے چائے کی پتی دے دی اور کاروبار کرنے کے لیے کہا، جب کہ معاملہ طے کرتے وقت اس نے رقم دینے ہی کا کہا تھا، بعد ازاں سرمایہ لگانے والا چائے کی پتی کی شکل میں رقم دیتا ہے اور کام کرنے والے کی نگرانی کرتا ہے اور کام کرنے والا جس سے بھی بیع و شراء کا معاملہ کرتا ہے تو سرمایہ لگانے والے کے مشورے سے کرتا ہے اور کام کرنے والا زیادہ تر پتی سرمایہ لگانے والے ہی سے خریدتا ہے لیکن کچھ پتی دوسرے تاجر حضرات سے بھی حاصل کرتا ہے اور اسے یہ اختیار ہے کہ وہ جہاں سے چاہے پتی خریدے، اب کاروبار میں نقصان ہو گیا تو سرمایہ دار کام کرنے والے کو ذمہ دار ٹھہراتا ہے، کام کرنے والا کہاں تک ضامن ہوگا۔

سوال میں ذکر کردہ تفصیل میں غور و خوض کیا گیا، ہماری رائے کے مطابق مندرجہ بالا معاملہ مضاربت ہے اور سرمایہ لگانے والے شخص کی جانب سے روپے کی بجائے چائے دینے یا کاروبار کی پوری نگرانی کرنے کی وجہ سے اس معاملہ کی نوعیت نہیں بدلی، کیونکہ سوال سے معلوم ہو رہا ہے کہ فریقین کے درمیان مذکورہ عقد ابتدائً روپے کی ادائیگی کی صورت میں طے پایا تھا جو سرمایہ لگانے والے نے مضارب کو ادا کرنا تھے بعد ازاں رب المال نے روپیہ کے بجائے چائے کی پتی دے دی جب مضارب اس چائے کی پتی کو بیچ کر ثمن وصول کر لے گا تو مضاربت صحیح ہو جائے گی البتہ یہ ضروری ہے کہ سرمایہ لگانے والے شخص نے جس قدر رقم دینا طے کیا تھا اتنی رقم مضارب کو حاصل ہو جائے چنانچہ علامہ حصکفیؒ فرماتے ہیں:

(وشرطھا) امور سبعۃ (کون رأس المال من الاثمان) الخ۔

اس کے تحت علامہ شامیؒ فرماتے ہیں:

ای الدراھم والدنا نیر فلو من العروض فبا عھا فصارت عقودا انقلبت مضاربۃ واستحن المشروط کما فی الجواہر (فتاویٰ شامیۃ ۵/۶۷۸)

وفی تقریرات الرافعی علیہ : قولہ فلومن العروض فبھا عھا الخ ای بأن رفع الیہ عرضا وأمر ببیعد وعمل مضاربۃ فی ثمنہ فقبل صح لانہ لم یضف المضاربۃ الی العرض بل الی ثمنہ کما فی الدرر بخلاف ما اذا دفع مرضا علی ان قیمتہ الف مثلاً ویکون ذلک رأس المال فھو باطل کما فی الشرنبلالیۃ۔

سرمایہ لگانے والے کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنے سرمایہ کے تحفظ کے لیے مضارب کو مخصوص سامان میں، مخصوص شخص سے یا کسی خاص شہر میں مضاربت کرنے کا پابند کرے اور اس کی نگرانی کرتا رہے، اس صورت میں یہ مضاربت مقیدہ ہوگی۔

صاحب در مختار فرماتے ہیں:

(ولا) یملک ایضا (تجاوز بلد اوسلعۃ اووقت اوشخص عینہ المالک) لان المضاربۃ تقبل لتقیید المفید ولو بعد العقد مالم یصر المال عرضا لانہ حینئذ لا یملک عزلہ فلا یملک تخصیہ۔ (۵/۶۵۰)

جب مذکورہ معاملہ مضاربت کے طور پر منعقد ہو گیا تو مضاربت کے اصول کے مطابق تمام مسائل کو حل کیا جائے گا چنانچہ اگر کاروبار میں نفع ہو تو طے شدہ ضابطہ کے مطابق نفع تقسیم ہوگا اور اگر خسارہ ہو تو پہلے نفع سے پورا کیا جائے گا اگر نفع سے خسارہ پورا نہ ہو تو اصل مال سے خسارہ پورا کیا جائے گا، یہ خسارہ مضارب پر کسی صورت میں نہیں آئے گا، البتہ اگر مضارب نفع کی مد میں سے کچھ رقم پہلے وصول کر چکا ہو اور بعد میں خسارہ ہو جائے تو خسارہ کو پورا کرنے کے بقدر نفع کی مد میں وصول کی گئی رقم اس سے واپس لی جائے گی اور خسارہ کے نفع سے بڑھ جانے کی صورت میں اس پر مزید کوئی تاوان نہیں آئے گا۔

وما ھلک من مال المضاربۃ فھو من الربح دون رأس المال فان زاد الھالک علی الربح فلاضمان علی المضارب لانہ امین وان کان یقتسمان الربح فالمضاربۃ بحالھم ثم ھلک المالک بعضہ اوالکلہ تراد الربح حتی یستوفی رب المال رأس المال۔ (الھدایۃ ۳/۲۶۴)

اگر سرمایہ لگانے والا مضاربت ختم کر دے اور ابھی لوگوں سے قرضوں کی وصولی باقی ہو تو اگر مضاربت میں نفع ہوا ہے تو مضارب پر لازم ہے کہ وہ ملنے والے نفع کے پیش نظر قرضے وصول کرے اور اگر کاروبار میں خسارہ ہوا ہے تو مضارب پر قرضوں کی وصولی ضروری نہیں ان کی وصولی کے لیے وہ اجرت کا مطالبہ بھی کر سکتا ہے۔

(ولوافترقا وفی المال دیون ذربح اجبر علی اقتصاد الدیون) لانہ کالا جیر والربح کالا جرۃ لہ وقد مسلم لہ ذلک فیجبر علی اتمام عملہ کما فی الاجارۃ المحضۃ (ذالا لایلزمہ الاقتضائ) ای ان لم یکن فی المال ربح لایلزمہ الاقتضاء لانہ وکیل محض وھو متبرع ولا جبر علی المتبرع علی انھاء ما تبرع بہ الخ۔

(تبیین الحقائق ۵/۶۸)"