+(00) 123-345-11

ایک شخص جائیداد چھوڑ کے فوت ہو جاتا ہے اس کی اولاد میں سے ایک بیٹا یہ دعویٰ کرتا ہے کہ والد مرحوم نے وفات سے پہلے مجھے اپنے مکان کے ایک یا دو کمرے انگوٹھا لگا کر میرے نام کر دئیے ہیں اس لیے ان کمروں کا اب میں مالک ہوں۔ مرحوم والد اگر تعلیم یافتہ تھے لیکن ضعف عمری میں بینائی جاتی رہی تھی اس لیے تجزیہ یا دستخط کی بجائے صرف انگوٹھا لگاتے تھے۔

شریعت مطہرہ میں بیٹے کے درج ذیل تقاضا کے متعلق کیا حکم ہے۔

والد مرحوم کا مرض الوفات کے دوران ایک یا دو کمرے اپنے بیٹے کے نام تحریر میں لکھ کر دینا ظاہراً ہبہ ہے اور معنی وصیت ہے، مذکورہ بالا صورت میں اگر والد مرحوم بیٹے کو کمروں کا مکمل طور پر مالک و قابض بنائے بغیر دنیا سے رخصت ہو گئے ہیں تو یہ ہبہ باطل ہو گیا ہے اور اگر مالک و قابض بنا کر کمرے اس کے حوالے کر دئیے تھے تو پھر یہ وارث کیلئے وصیت ہے جو دوسرے ورثاء کی رضا مندی کے بغیر جائز نہیں،بہرصورت یہ کمرے بھی والد صاحب کی باقی جائیداد میں شامل ہو کر تمام ورثاء میں حصوں کے مطابق تقسیم ہوں گے۔

قال فی الاصل ولا تجوز ھبۃ المریض ولا صدقتہ الا مقبوضۃ فاذا قبضت جازت من الثلث واذا مات الواھب قبل التسلیم بطلت یجب ان یعلم بانہ ھبۃ المریض ھبۃ عقدا ولیست بوصیۃ واعتبار ھا من الثلث ماکانت لانھا وصیۃ معنی لان حق الورثۃ یتعلق بمال المریض الخ۔ (فتاویٰ عالمگیریہ ج ۴، ص ۴۰۰)"