+(00) 123-345-11

رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق توہین آمیز اشاعت جو کہ فرانسیسی، ڈنمارک اور نارویجین زبانوں کی اخبارات میں ہوئی ہے۔ مہربانی فرما کر اس گستاخی کے مرتکب لوگوں کے اس گستاخی کے مرتکب لوگوں کے متعلق احکامات بیان فرمائیں اور توثیق اور تصدیق کے لیے قرآن و حدیث کے حوالہ جات ضرور دیں علا وہ ازیں کچھ ایسی حکایات یا واقعات بیان فرمائیں جو کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں یا خلفائے راشدین کے زمانہ میں پیش آئے ہوں، جواب انگریزی اور اردو دنوں زبانوں میں عطا فرمائیں۔

صورت مسئولہ میں جو شخص بھی توہین رسالت کا مرتکب ہو قرآن و سنت کے دلائل کی روشنی میں اس کی سزا سزائے موت ہے البتہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اختیار حاصل تھا کہ وہ اپنی شان میں گستاخی کرنے والے کو معاف فرما دیتے یا قتل کر دیتے لیکن اُمت کو معاف کرنے کا حق حاصل نہیں ہے بلکہ ان پر اس کا قتل کرنا واجب ہے اور یہی صحابہ کرامؓ کا فتویٰ اور تعامل تھا۔

وقال ابن عتاب: نص الکتاب والسنۃ موجبان أن من قصد النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم بأذی اونقص معرضًا او مصرحًا وان قل فقتلہ واجب۔

اور ایک جگہ علامہ انور شاہ صاحب کشمیریؒ فرماتے ہیں کہ:

فطرۃ من بحرۃ من کتاب ’’الصارم المسلول علی شاتم الرسول‘‘ للحاظ ابن تیمیۃ رحمہ اللّٰہ تعالیٰ فی ان الحاق نقص وثین لحضرۃ الانبیاء علیہم السلام کفر بل کل الکفرو استوعب فی کتابہ ھذہ المسألۃ واوعب من الکتاب والسنۃ والاجماع والقیاس وأن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم لہ انہ یعفوعن سابہ ولہ ان یقتل وقد وقع کلا الأمرین واما الامۃ فیجب علیہم قتلہ۔

ایک اور جگہ تحریر فرماتے ہیں کہ:

الدلیل السادس: اقاویل الصحابۃ فانھا نصوص فی تعیین قتلہ مثل قول عمرؓ : من سب اللّٰہ اوسب احدًا من الانبیاء فاقتلوہٗ فأمر بقتلہ عینًا ومثل قول ابن عباسؓ: أیما معاھد عاند فسب اللّٰہ اوسب أحدًا من الانبیاء لوجھربہ فقد نقض العھد فاقتلوہٗ فأمر بقتل المعاھد اذا سب عینًا۔"