+(00) 123-345-11

میری بیوی ایک شادی میں شمولیت کے لیے اصرار کر رہی تھی جبکہ میں راضی نہ تھا میں نے غصہ میں بغیر طلاق کی نیت کیے یہ الفاظ کہہ دئیے اگر تم نے جانا ہے تو میری طرف سے فارغ ہو۔

اگر بیوی نے اس شادی میں شمولیت اختیار نہیں کی تو پھر کچھ بھی واقع نہیں ہوا اس لیے کہ شرط ہی نہیں پائی گئی اور اگر بیوی چلی گئی تو پھر حکم یہ ہے کہ اگر ’’تم میری طرف سے فارغ ہو‘‘ کو آپ نے یہ معنی لیتے ہوئے کہا کہ ’’نکاح سے فارغ ہو‘‘ تو پھر ایک طلاق بائن واقع ہو چکی ہے جس کا حکم یہ ہے کہ عدت کے اندر باہمی رضا مندی سے نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح ہو سکتا ہے۔ لہٰذا آپ دو گواہوں کے سامنے نئے مہر کے ساتھ ایجاب و قبول کر لیں تو نکاح ہو جائے گا اور اگر اس کے علاوہ کوئی اور معنی لیتے ہوئے آپ نے یہ الفاظ کہے ہیں تو پھر کچھ بھی واقع نہیں ہوا۔

والاصل الذی علیہ الفتوی فی زماننا ھذا فی الطلاق بالفارسیۃ انہ کان فیھا لفظ لایستعمل الا فی الطلاق فذالک اللفظ صریح یقع بہ الطلاق من غیرنیۃ اذا اضیف الی المرأۃ مثل ان یقول فی عرف دیارنا رہاکنم اوفی عرف خراسان بہشتم لان الصریح لایختلف باختلاف اللغات وما کان فی الفارسیہ من مایستعمل فی الطلاق وفی غیرہ فھو من کنایات الفارسیۃ فیکون حکمہ حکم کنایات العربیۃ فی جمیع الاحکام واللہ اعلم۔ (بدائع الصنائع ۳/۱۰۲)

واماحکم الطلاق البائن ...... فان کانا حرین فالحکم الاصلی لمادون الثلاثہ من الواحدۃ البائنۃ والثنتین البائنتین ھو نقصان عدد الطلاق و زوال الملک ایضا حتی لایحل لہ وطؤھا الابنکاح جدید ...... ولا یحرم حرمۃ غلیظۃ حتی یجوز لہ نکاحھا من غیر ان تتزوج بزوج أخر لان مادون الثلاثۃ وان کان بائنا فانہ یوحب زوال الملک لازوال حل المحلیۃ۔ (بدائع الصنائع ۳/۱۸۷)"