+(00) 123-345-11

(۱) جنرل پراویڈنٹ فنڈ جو کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں سے کٹتا ہے اور جب ملازم ریٹائر ہوتا ہے تو تب اس کو یکمشت دیا جاتا ہے کیا جی پی فنڈ کو اس شخص کی بچت سمجھا جائے؟

(۲) بیمہ زندگی کا سالانہ پریمیم کیا متعلقہ شخص کی بچت ہے اور کیا اس پر زکوٰۃ لاگو ہوتی ہے گو کہ اس بیمہ زندگی کے معاہدہ میں یہ لکھا ہوتا ہے کہ آپ دو سال کے بعد رقم واپس لے سکتے ہیں۔ اگر مذکورہ مدات پر زکوٰۃ واجب الادا ہے تو اس کا حساب کیسے کیا جائے۔

(۱) جی پی فنڈ کی رقم جب تک حاصل نہ ہو جائے اس وقت تک اس پر زکوٰۃ لازم نہیں ہوتی اور جب یہ رقم حاصل ہو جائے اس وقت سے زکوٰۃ کے احکامات شروع ہوں گے۔

(۲) بیمہ زندگی کے طور پر جو رقم جمع کروائی جاتی ہے اس جمع شدہ اصل رقم پر زکوٰۃ واجب ہے اور اس میں بہتر صورت یہ ہے کہ ہر سال کی زکوٰۃ ساتھ ساتھ ادا کر دی جائے۔ اس میں سہولت بھی ہے اور احتیاط بھی اور جب مذکورہ بالا تمام رقم واپس مل جائے اس وقت بھی سابقہ تمام سالوں کی زکوٰۃ اکٹھی ادا کی جا سکتی ہے۔ نیز یاد رہے کہ بیمہ زندگی کے معاملہ کے نتیجہ میں جو زائد رقم اصل جمع کروائی ہوئی رقم کے علاوہ ملتی ہے اس کا لینا اور استعمال کرنا جائز نہیںہے۔

روی ابن ابی شیبہ فی مصنفہ عن عمر ابن میمون قال قال اخذ الولید بن عبدالملک مال رجل من اہل الرقۃ یقال لہ ابو عائشۃ عشرین الفا فالقاھا فی بیت المال فلما ولی عمر بن عبدالعزیز اتاہ ولدہ فرفعوا مظلمتھم الیہ فکتب الی میمون ان ادفعوا الیھم اموالھم وخذوا زکوٰۃ عامھم ھذا (فتح القدیر) وعند قبض مائتین مع حولان حول بعدہ الخ (در مختار مع الشامیہ ۲/۳۰۶)"