+(00) 123-345-11

اکثر لوگ زکوٰۃ مدرسے والوں کے دیتے ہیں اور آجکل مدارس کی یہ ترتیب ہے کہ تقریباً سارا مال مہتمم یا ناظم کے پاس ہوتا ہے تو جب وہ صاحب نصاب بن جائے یا پہلے سے صاحب نصاب ہو تو وہ حیلہ کے طور پر کسی غریب طالبعلم کو خواہ طالبعلم چھوٹا ہو یا بڑا اپنے ساتھ رکھتے ہیں تاکہ وہ زکوٰۃ کا مال قبول کریں جب وہ قبول کر لیتا ہے تو مہتمم ان سے لے لیتا ہے خواہ شاگرد راضی ہو یا نہ ہوبعض مہتمم ساتھ ساتھ (اپنے شاگرد سے) یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ زکوٰۃ کا مال یا زکوٰۃ کا لفظ استعمال نہ کریں اور اس کو قبول کرو اور پھر مجھے دے دو اور زکوٰۃ کے ارکان میں سے کامل تملیک شرط ہے تو کیا یہ کامل تملیک ہو گئی یا نہیں اور کیا شاگرد مہتمم کو زکوٰۃ کا مال دے سکتا ہے یا نہیں؟

سوال میں ذکر کردہ حیلہ کی صورت اختیار کرنے کی بجائے یہ صورت اختیار کی جائے کہ کوئی مستحق زکوٰۃ شخص کسی سے قرض لے کر مدرسہ کی ضرورت پوری کردے پھر اس شخص کی قرض کی ادائیگی کے لیے زکوٰۃ کی رقم کا اس کو مالک بنا دیا جائے۔ (امداد الفتاویٰ ج ۱)"