+(00) 123-345-11

(۱) کیا مستقل حرام کھانے والے شخص کی کسی مسجد میں امامت و خطابت جائز ہے کہ نہیں؟

(۲) اگر ایسا شخص کسی جگہ امامت کرتا ہو تو اس کے پیچھے پڑھی گئی نمازوں کا کیا حکم ہے۔ لوٹانی چاہیں کہ نہیں۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں عقیدہ علماء اہلسنت فقہ حنفی کی روشنی میں جواب سے نوازیں اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔

(۱، ۲) حرام کھانے والا شخص فاسق ہے ایسے شخص کو امام و خطیب کے اہم منصب پر فائز نہیں کرنا چاہیے کیونکہ فاسق کی امامت مکروہ تحریمی ہے اور ایسا شخص امر دین میں عدم احتیاط کا شکار ہوگا البتہ ایسے امام کے پیچھے پڑھی ہو ئی نمازیں لوٹانے کی ضرورت نہیں ہے ایسے امام کے پیچھے نماز پڑھنے کے بجائے صالح عالم باعمل کی اقتداء میں نماز پڑھنی چ\x0640اہیے لیکن اگر ایسا ممکن نہ ہو تو پھر الگ نماز پڑھنے کے بجائے اسی امامِ فاسق کے پیچھے نماز پڑھ لینی چاہیے۔

(۱) (ویکرہ امامۃ عبد واعرابی و فاسق) ای من الفسق وھوالخروج عن الاستقامۃ ولعل المراد بہ من یرتکب الکبائر کشارب الخمر والزانی واکل الرباء ونحوذالک (ردالمحتار باب الامامۃ ۱/۱۴)

(۲) واما الفاسق فقد عللوا کراھۃ تقدیمہ بانہ لایھتم لا مردینہ وبان فی تقدیمہ للامامۃ تعظیمہ وقد وجب علیھم اھانتہ شرعاً۔ (ایضاً ۱/۴۱۴)

(۳) تجوز امامۃ الاعرابی والا عمی والعبد وولد الزنا والفاسق کذا فی الخلاصۃ الا انھا تکرہ ھ\x0640 کذا فی المتون۔ (ہندیۃ ۱/۸۵ الفصل الثالث فی بیان من یصلح اما ما لغیرہ)

(۴) ولو صلی خلف مبتدع اوفاسق فھو محرز ثواب الجماعۃ لکن لاینال مثل ماینال خلف تقی کذا فی الخلاصۃ۔ (عالمگیریہ ۱/۸۴)

(۵) وفی النھر عن المحیط صلی خلف فاسق او مبتدع نال فضل الجماعۃ وفی الرد: قولہ نال فضل الجماعۃ الخ ان الصلوٰۃ خلفھما اولی من الافراد۔ (ردالمختار باب الامامہ ۱/۴۱۴)

(۶) واذا صلی الرجل خلف فاسق اومبتدع یکون محرزا ثواب الجماعۃ لما روینا من الحدیث لکن لاینال ثواب من یصلی خلف عالم تقی۔ (قاضیخان ۱/۹۲)"