+(00) 123-345-11

حضرت عمرؓ نے تراویح کو بدعت حسنہ کیوں کہا حالانکہ یہ سنت ہے؟

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے تراویح کو جو بدعت کہا ہے وہ اصطلاحی معنی کے لحاظ سے نہیں بلکہ لغوی معنی کے اعتبار سے ہے یعنی نئی بات اور اس کو نئی بات اس وجہ سے کہا کے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں صرف تین دن تراویح کو باجماعت ادا کیا گیا اس کے بعد فرض ہونے کے اندیشہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تراویح کو باجماعت ادا نہیں کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد چونکہ فرض ہونے کا اندیشہ ختم ہو چکا تھا اس لیے منشائے نبوی کے مطابق حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تراویح کو باجماعت ادا کرنے کا حکم فرمایا۔

قال عمر رضی اللّٰہ عنہ نعم البدعۃ ھذہ:

قال ابن التین وغیرہ استنبط عمر ذلک من تقریر النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم من صلی معہ فی تلک اللیالی وان کان کرہ ذلک لہم فانہا خشیۃ ان یفرض علیہم ........... فلما مات صلی اللّٰہ علیہ وسلم حصل الامن من ذلک ورجح ولان الاجتماع علی واحد انشط لکثیر من المصلین۔

(ھامش البخاری، جلد ۱، ص ۲۶۹، حاشیہ ۶)"